بہرحال ہمارے دیندار طبقہ میں دو رکعت پڑھنے کا رحجان کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ا لبتہ دعا مسنون ضرور پڑھنی چاہیے۔ واللہ اعلم!
طلاق کی مشروعیت اور اس کے اسباب
سوال: عام طور پر طلاق کے متعلق ایک حدیث بیان کی جاتی ہے: ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔‘‘ اس حدیث کی کیا حیثیت ہے؟ کیا کسی وجہ سے بیوی کو طلاق دی جا سکتی ہے اور اس کے کیا اسباب ہیں؟
جواب: کسی معقول وجہ کی بناء پر اپنی بیوی کو طلاق دینا ایک مباح امر ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی ایک بیوی کو طلاق دی تھی اور پھر رجوع کر لیا تھا۔[1]
اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو اپنی بیوی سے محبت تھی لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ان کا اس کے ساتھ رہنا پسند نہ تھا، انہوں نے اس بات کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا: ’’عبد اللہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو۔‘‘ چنانچہ انہوں نے طلاق دے دی۔[2]
ایسا نہیں ہو سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ایسا حکم ارشاد فرمائیں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں مکروہ اور ناپسندیدہ ہو۔ سوال میں ذکر کردہ حدیث کو امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے کتاب الطلاق میں بیان کیا ہے، امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے، اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے اس کی توثیق کی ہے۔[3]
مگر امام ابو حاتم، دارقطنی اور بیہقی رحمہ اللہ نے اسے مرسل قرار دیا ہے۔ غالباً اسی وجہ سے علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف ابی داؤد میں درج کیا ہے۔ شایدکراہت کی وجہ ان اسباب کی کراہت ہے جن کے پیش نظر اس ہتھیار کو استعمال کیا جاتا ہے۔
طلاق دینے کے جائز اسباب حسب ذیل ہیں:
٭ خاوند اور بیوی کے درمیان عدم موافقت، وہ اس طرح کہ کسی ایک کی طرف سے دوسرے کے لیے دل میں کوئی نرم گوشہ نہ ہو یا پھر دونوں ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہوں۔
٭ عورت کا بدخلق ہونا، نیکی اور خیر کے کاموں میں شوہر کی اطاعت نہ کرنا۔
٭ خاوند کا بدکردار ہونا، بیوی پر ظلم و ستم کرنا، اس کے ساتھ ناانصافی کرنا اور اس کے حقوق ادا نہ کرنا۔
٭ دونوں میں سے کسی ایک یا دونوں کا کسی گناہ میں ملوث ہونا جس کی بناء پر ان کے حالات اس قدر کشیدہ ہو جائیں کہ طلاق ہو جائے۔
|