خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بعض غلط وصایا کی اصلاح فرمائی تھی۔ چنانچہ صورت مسؤلہ سے ملتی جلتی ایک وصیت کا ذکر احادیث میں آیا ہے کہ ایک انصاری کی کل جائیداد چھ غلام تھے، اس نے مرتے وقت وصیت کے ذریعے انہیں آزاد کر دیا، اس کے مرنے اور کفن و دفن کے بعد اس کے ورثاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو حقیقت حال سے آگاہ کیا تو آپ نے مرنے والے کو سخت برا بھلا کہا۔ پھر اس کی وصیت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان چھ غلاموں کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ اس کے ایک تہائی یعنی دو غلام آزاد کر دئیے اور باقی چار غلام واپس لا کر انہیں ان کے ورثاء کے حوالے کر دیا۔[1]
اس حدیث میں ان بزرگ حضرات کے لیے در س عبرت ہے جو دینی جذبہ کے پیش نظر اپنی تما م جائیداد وقف کر جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی ایک شخص کے متعلق سخت برا بھلا کہا تھا۔حدیث میں ’’قولا شدیدا‘‘ کے الفاظ آتے ہیں، دوسری روایات میں اس قول شدید کی وضاحت بھی منقول ہے۔
چنانچہ ایک روایت کے مطابق آپ نے فرمایا: ’’اگر ہمیں اس کی وصیت کا پہلے علم ہوتا تو ہم اس کی نماز جنازہ نہ پڑھتے۔‘‘[2]
بلکہ ایک روایت کے الفاظ اس سے بھی زیادہ سنگین ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر ہمیں پہلے علم ہوتا تو ہم اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کرتے۔‘‘[3]
ان احادیث کے پیش نظر ہمیں وصیت کے معاملہ میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ صورت مسؤلہ میں درج بالا حدیث کے پیش نظر اس طرح اصلاح کی جا سکتی ہے کہ مسجد سے ملحقہ مکان کا تیسرا حصہ مسجد کے لیے وقف کر دیا جائے یا اس کی مالیت کا تیسرا حصہ مسجد کو دے دیا جائے اور باقی حصے دو بیٹوں میں تقسیم ہوں، ہاں بیٹے اگر اپنی رضامندی سے اپنے باپ کی وصیت کو جوں کا توں برقرار رکھنا چاہیں تو یہ ان کی اپنی صواب دید ہے۔ بہرحال ان کا حق ہے وہ انہیں ملنا چاہیے تاکہ مرحوم کو اخروی باز پرس سے رہائی ملے۔ واللہ اعلم
مال زکوۃ سے خود فائدہ اٹھانا
سوال: میں نے ایک لائبریری قائم کی ہے، اس میں مال زکوٰۃ اور فطرانہ وغیرہ سے کتابیں خرید کر جمع کرتا ہوں۔ اس لائبریری سے خود بھی استفادہ کرتا ہوں اور دوسروں کو بھی پڑھنے کے لیے دیتا ہوں۔ میرا یہ عمل شریعت کی نظر میں کیسا ہے؟ وضاحت کردیں۔
جواب: قرآن و حدیث کی رو سے مال زکوٰۃ یا فطرانہ کو اپنے استعمال میں لانا بالاتفاق ممنوع اور ناجائز ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کسی کو اپنا گھوڑا فی سبیل اللہ دیا، اس نے اس گھوڑے کو ضائع کر دیا اور فروخت کرنے کے لیے لگا دیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے خریدنا چاہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے مت خریدو، اپنے صدقہ کو اپنی طرف مت لوٹاؤ اگرچہ وہ تجھے ایک درہم
|