ہے۔ اس عمر میں بچہ عام طور پر سمجھ دار اور صاحب شعور ہو جاتا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی شمولیت سے یہ شرط اخذ کی جا سکتی ہے۔
٭ عیدگاہ لانے سے پہلے ان کی اس پہلو سے تربیت کرنا ضروری ہے کہ عید اور عیدگاہ کے آداب کیا ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ وہ عیدگاہ میں اودھم مچاتے رہیں اور انہیں کوئی روکنے والا نہ ہو۔
٭ چھوٹے شیر خوار بچوں کو عیدگاہ لے جانے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ وہ خود ماؤں اور دیگر خواتین و حضرات کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔
٭ شرارتی اور بے عقل بچوں کو بھی گھر میں رہنے دیا جائے، کیوں کہ شرارتی بچوں کو دیکھ کر سنجیدہ بچے بھی اچھل کود میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
٭ بچے ماں کے بجائے باپ کے ساتھ ہوں تو بہتر ہے تاکہ بوقت ضرورت ان پر کنٹرول کرنا آسان ہو اور وہ عیدگاہ میں دوسروں کی نماز خراب نہ کر سکیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس قسم کی شرائط کو ذکر کیا ہے۔ واللہ اعلم
عیدین کا وقت
سوال :ہمارے ہاں نماز عید کافی دیر سے ادا کی جاتی ہے، اس کا مسنون وقت کیا ہے؟ راہنمائی فرمائیں۔ تاکہ سنت کے مطابق اسے مستحب وقت میں ادا کیا جائے اور لوگوں کو اس کا پابند کیا جائے۔
جواب: نماز عید کا وقت طلوع آفتاب سے لے کر زوالِ آفتاب تک ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مرتبہ زوال آفتاب کے بعد عید کا چاند نظر آنے کی اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کل صبح لوگ نماز عید کے لیے عیدگاہ پہنچیں۔‘‘[1]
اس کا مطلب یہ ہے کہ زوال آفتاب کے بعد نماز عید کا وقت نہیں، اسے صبح طلوع آفتاب کے بعد جلدی ادا کرنا چاہیے۔
چنانچہ سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ لوگوں کے ساتھ عید الفطر یا عیدالاضحیٰ کے دن نکلے تو انہیں امام کے تاخیر کر دینے پر بہت تعجب ہوا، انہوں نے فرمایا:
’’بے شک ہم تو اس وقت نماز پڑھ کر فارغ ہو جاتے تھے اور نماز چاشت کا وقت تھا۔‘‘[2]
سیدنا جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اس وقت پڑھتے تھے جب سورج دو نیزوں کے برابر ہو جاتا اور عیدالاضحی اس وقت پڑھتے تھے جب سورج ایک نیزے کے برابر ہو جاتا۔[3]
|