میت کی کل جائیداد کے 8 حصے
بیوہ بیٹا بیٹا بیٹا بیٹی
1 2 2 2 1
واللہ اعلم!
دیت کی تقسیم
سوال: ہمارے ہاں ایک قتل ہوا، قاتل کے عزیز و اقارب نے چوبیس لاکھ روپے دیت ادا کرنے پر مقتول کے ورثاء سے صلح کر لی ہے، مقتول کے ورثاء میں سے والد، والدہ، دو حقیقی بھائی اور دو مادری بھائی ہیں، دیت کی شرعی تقسیم کیسے ہو گی؟
جواب: قتل کے معاملہ میں دیت ان لوگوں نے ادا کرنا ہوتی ہے جو قاتل کے باپ کی طرف سے مرد رشتہ دار ہوتے ہیں، جنہیں عاقلہ کہا جاتا ہے۔ پھر وہ دیت مقتول کے ورثاء میں تقسیم کر دی جاتی ہے۔
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’دیت کی ادائیگی قاتل کے عصبہ پر ہوتی ہے۔‘‘[1]
صورت مسؤلہ میں چوبیس لاکھ روپیہ کی ادائیگی پر صلح کی گئی ہے اور مقتول کے ورثاء والد، والدہ، دو حقیقی بھائی اور مادری بھائی ہیں، مادری بھائی تو محروم ہیں کیوں کہ انہیں میت کے کلالہ ہونے کی صورت میں وارث بنایا جاتا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔2
اب قاتل کی طرف سے ملنے والی دیت کے حق دار صرف والدین ہیں، متعد د بھائیوں کی موجودگی میں ماں کو چھٹا حصہ ملتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ ﴾[2]
’’اگر مرنے والے کے متعدد بہن بھائی ہیں تو ماں کو چھٹا حصہ ملتا ہے۔‘‘[3]
ماں کو چھٹا حصہ دینے کے بعد باقی پانچ حصے والد کے ہیں۔
سہولت کے پیش نظر دیت یعنی چوبیس لاکھ کے چھ حصے کر لیے جائیں، ایک حصہ والدہ کو اور باقی پانچ باپ کو دئیے جائیں۔ یعنی چار لاکھ روپیہ والدہ کو اور بیس لاکھ روپیہ والد کو دیا جائے گا۔ مادری بھائی اور حقیقی بھائی محروم ہیں، ان کو اس دیت سے کچھ نہیں ملے گا۔
و اضح رہے کہ دیت کی رقم کے علاوہ دیگر جائیداد بھی اسی نسبت سے تقسیم ہو گی۔ اس میں کسی قسم کی کمی بیشی جائز نہیں۔ واللہ اعلم!
|