لائبریری و دیگر اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔
٭ بعض دور اندیش حضرات اپنے طور پر ایک انفرادی بیت المال بنا لیتے ہیں پھر لوگوں سے چندہ مانگ مانگ کر اسے بھرتے ہیں پھر اسے بچیوں کے جہیز کے نام سے استعمال کیا جاتا ہے۔ نگران ہونے کی حیثیت سے اپنی ضروریات کو بھی اس سے پورا کیا جاتا ہے۔
صورت مسؤلہ میں بھی اسی طرح کی صورت حال بیان کی گئی ہے،ہمارے نزدیک غریبوں، یتیموں اور بیواؤں کا مال غلط طریقہ سے استعمال کیا جاتا ہے، اس قسم کے چور دروازوں کو بند ہونا چاہیے۔ ہمارے نزدیک ہر مسجد کا بیت المال ایک غیر اسلامی حرکت ہے، اس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ اس کے لیے یا تو جماعتی سطح پر ایک بیت المال قائم کیا جائے یا پھر انسان انفرادی طور پر اپنی زکوٰۃ، عشر،فطرانہ اور چرمہائے قربانی کو صحیح مصرف میں خرچ کرنے کا پابند ہے۔ واللہ اعلم
موت کے وقت تمام جائیداد وقف کر دینا
سوال: ہمارے والد محترم نے موت کے وقت اپنا مکان جو مسجد سے ملحق تھا، مسجد کے لیے وقف کر دیا ہے، جبکہ ہم دو بھائی، اس کے شرعی وارث تھے، کیا ایسا کرنا درست ہے؟ اگر درست نہیں تو اس کی اصلاح کیسے کی جا سکتی ہے؟ قرآن و حدیث کی روشی میں وضاحت کریں۔
جواب: ہمارے ہاں مرتے وقت اس قسم کے اقدام کو وصیت کا درجہ دیا جاتا ہے۔ حالانکہ وصیت کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ وہ ’’غیر مضار‘‘ یعنی وہ کسی وارث کے لیے ضرر رساں نہ ہو۔ ضرر رساں وصیت کی صورت یہ ہے کہ ایسے طور پر وصیت کی جائے جس سے مستحق رشتے داروں کے حقوق تلف ہوتے ہوں، ناجائز اور ضرر رساں وصیت کی درج ذیل صورتیں بھی ہیں:
٭ جن ورثاء کے لیے وصیت کی جاتی ہے وہ اس کے حق دار نہیں ہوتے۔ مثلاً بیوی کے حق میں وصیت کر جانا۔
٭ جائز ورثاء کے لیے شریعت کی قائم کردہ حد سے زیادہ وصیت کرنا۔ مثلاً کسی کے لیے نصف جائیداد کی وصیت کرنا۔
٭ ظلم اور بے انصافی پر مبنی وصیت کرنا جس سے دوسروں کے حقوق تلف ہوتے ہیں۔
صورت مسؤلہ میں وصیت بھی ظلم، ناانصافی پر مبنی ہے، کیوں کہ اولاد کی موجودگی میں تمام مال کی وصیت جائز نہیں، اس قسم کی وصیت کو درست کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًا فَاَصْلَحَ بَیْنَہُمْ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ﴾[1]
’’ہاں جو شخص وصیت کرنے والے کی طرف سے جانب داری یا حق تلفی کا اندیشہ رکھتا ہو اگر وہ باہمی طور پر ان کی اصلاح کر دے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘
|