اگر خواتین کے لیے مسجد کے علاوہ گھروں میں اعتکاف کرنا صحیح ہوتا تو آپ انہیں گھروں میں اعتکاف کرنے کا حکم دے دیتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا۔
چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اعتکاف کے لیے مسجد کا ہونا شرط ہے، کیوں کہ عورتوں کو گھر میں چھپ کر عبادت کرنا مشروع ہے۔ اگر اعتکاف کے لیے مسجد کا ہونا شرط نہ ہوتا تو آپ سے اجازت اور پھر منع کرنا کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ آپ انہیں گھروں کی مساجد میں اعتکاف کرنے کا حکم دے دیتے۔‘‘[1]
اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں کے لیے مسجد کا اہتمام ضروری ہے لیکن اس کے لیے چند شرائط حسب ذیل ہیں:
٭ عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے خاوند یا سر پرست سے اجازت لے۔
٭ مسجد میں اعتکاف کرنے سے کسی قسم کے فتنہ و فساد کا اندیشہ نہ ہو۔
٭ مسجد میں پردے کا معقول بندوبست ہو، وہاں مردوں سے اختلاط کا مکمل تحفظ ہو۔
٭ مسجد میں سحری و افطاری کا معقول انتظام ہو یا کوئی گھر سے کھانا لانے والا ہو۔
٭ بحالت اعتکاف مخصوص ایام آنے کا اندیشہ نہ ہو۔
٭ اعتکاف کی حالت میں موبائل وغیرہ کے استعمال پر مکمل پابندی ہو۔
اگر یہ شرائط پوری نہ ہوں تو عورتوں کے لیے مسجد میں اعتکاف سے اجتناب زیادہ بہتر ہے، ایسے حالات میں گھر کے کسی گوشہ میں شوق عبادت پورا کر لینا چاہیے لیکن اسے شرعی طور پر اعتکاف نہیں کہا جا سکے گا اور نہ ہی اعتکاف کی پابندیاں ان پر عائد ہوں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ایک مستحاضہ بیوی کا آپ کے ہمراہ مسجد میں اعتکاف کرنا ثابت ہے۔[2]
جب ایسی حالت میں بھی اعتکاف کے لیے مسجد کا ہی انتخاب کیا جاتا تھا تو اس کا واضح مطلب ہے کہ عورتوں کے لیے گھر میں اعتکاف کرنا مشروع نہیں۔ واللہ اعلم
روزے کی نیت
سوال: روزے کی نیت کے متعلق کیا احکام ہیں؟ کیا نیت کے بغیر روزہ رکھا جا سکتا ہے۔ آج کل مختلف کتب میں روزے کی نیت لکھی ہوتی ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا نیت کے لیے ان الفاظ کا پڑھنا ضروری ہے؟
جواب: ہر عمل کے لیے نیت کرنا ضروری ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر انسان کے لیے وہی کچھ ہوگا جو اس نے نیت کی ہوگی۔‘‘[3]
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:
|