بشارت دی گئی ہے۔ ان کے علاوہ کسی دوسرے کے متعلق قطعی طور پر یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔
جیسا کہ سیدہ ام علاء رضی اللہ عنہا نے سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کے متعلق کہا تھا: ’’اے ابو سائب! محمد پر اللہ کی رحمت ہو! تیرے متعلق میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے ضرور عزت دی ہو گی۔‘‘
یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تجھے اس کے متعلق کیا علم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ضرور عزت دی ہے، اسے موت آ چکی ہے میں اس کے لیے رحمت کی امید کرتا ہوں، قطعی طور پر تو مجھے اپنے متعلق بھی علم نہیں ہے۔‘‘[1]
اس سے معلوم ہوا کہ قطعی طور پر کسی کے متعلق یہ فیصلہ کرنا ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ مغفور و مرحوم ہے، البتہ اگر نیت دعا کی ہے تو ایسا کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ جیسا کہ ہم کسی کے لیے رحمہ اللہ یا غفراللہ لہ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، اس سے مراد کسی کے مرحوم و مغفور ہونے کی خبر دینا نہیں بلکہ اس کے لیے دعائیہ کلمات ہیں جو استعمال کیے جا سکتے ہیں، اور زبان میں اختصار کے پیش نظر مرحوم دعا کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے۔ واللہ اعلم!
تیزیٔ نظر کے لیے ایک غلط وظیفہ
سوال: پڑھے لکھے علماء کرام نظر کی تیزی کے لیے درج ذیل وظیفہ بتاتے ہیں، وظائف کی کتابوں میں بھی لکھا ہوتا ہے: ’’فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَاءَکَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ‘‘ اسے سات مرتبہ پڑھ کر انگلیوں کے پوروں پر پھونک ماری جائے پھر انہیں آنکھوں پر پھیر لیا جائے تو ایسا کرنے سے بینائی تیز ہو جاتی ہے۔ اس کے متعلق وضاحت کریں۔
جواب: درج بالا وظیفہ سورت ق کی آیت نمبر ۲۲ کا ایک حصہ ہے، پوری آیت ترجمہ سمیت حسب ذیل ہے: ﴿لَقَدْ كُنْتَ فِيْ غَفْلَةٍ مِّنْ هٰذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَآءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيْدٌ﴾ ’’بلاشبہ تو اس (قیامت کے) دن سے غافل رہا تو آج ہم نے تیری آنکھوں سے پردہ اٹھا دیا ہے اور آج تیری نظر خوب تیز ہے۔‘‘
قرآن و حدیث کے مطابق خود دم کرنا اور کسی بزرگ سے دم کروانا دونوں طرح جائز اور مباح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود دم کرتے تھے اور حسن اور حسین رضی اللہ عنہا کو بھی دم کرتے تھے۔ شرعی دم کے لیے یہ شرائط ہیں کہ وہ کسی قرآنی آیت اور حدیث پر مشتمل ہو یا کم از کم کوئی ایسی عبادت پر مشتمل ہو جو اپنے اندر کسی جامع معنی پر مشتمل ہو اور اس میں شرکیہ الفاظ اور مہمل عبارت نہ ہو۔ پھر اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ معنوی طور پر اس کا اس بیماری کے ساتھ گہرا تعلق ہو جس کے لیے دم یا وظیفہ کیا جا رہا ہے۔ اس وضاحت کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ درج بالا آیت کریمہ کا آنکھوں کی بینائی اور نظر کی تیزی کے ساتھ کیا تعلق ہے جبکہ اس کا سیاق و سباق ایک ایسے شخص کے متعلق ہے جو دنیا میں اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے لاتعلق اور بے خبر رہا، بلکہ وہ دنیا کی دلفریبی میں لگن اور مست رہا، جب قیامت کے دن محاسبے کا ذکر ہوتا تو فوراًاس کا انکار کرتا، اس پر عمل کرنا تو درکنار ایسی بات سننا بھی گوارا نہ کرتا، اسے قیامت کے دن کہا جائے گا: ’’آج ہم نے تیری آنکھوں کے سامنے سے غیب
|