فرمایا: ’’اے اللہ! میرے بعد آنے والے میرے خلفاء (جانشینوں) پر رحم فرما جو میری سنت کو اور میری احادیث کو بیان کریں گے اور لوگوں کو ان کی تعلیم دیں گے۔‘‘[1]
اس روایت کی سند میں احمد بن عیسیٰ نامی ایک راوی بے بنیاد احادیث بیان کرنے والا ہے۔ چنانچہ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے کذاب کہا ہے۔[2]
قاضی حسن بن عبد الرحمن رامہرمزی نے اپنی کتاب ’’الہدی الفاصل‘‘ کا آغاز ہی اس حدیث سے کیا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’اے اللہ! میرے خلفاء پر رحم فرما، ہم نے عرض کیا کہ آپ کے خلفاء کون ہیں؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو میری احادیث اور سنت کو بیان کریں گے اور لوگوں کو ان کی تعلیم دیں گے۔‘‘[3]
امام ذہبی رحمہ اللہ نے احمد بن عیسیٰ کے ترجمہ میں بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے: ’’یہ حدیث باطل ہے۔‘‘[4]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی امام ذہبی رحمہ اللہ کے اس تبصرہ کو برقرار رکھا ہے۔[5]
محدث العصر امام ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو باطل اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔[6]
ہمارے خطباء حضرات کو چاہیے کہ احادیث بیان کرتے وقت ان کی صحت و ضعف کو ضرو ر مدنظر رکھیں۔
عشق کے متعلق ایک روایت
سوال: عشق کے متعلق ایک روایت بیان کی جاتی ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جسے عشق ہوا مگر وہ پاک دامن رہا، اسے چھپائے رکھا اور مر گیا تو وہ شہادت کی موت مرا۔‘‘… اسے کشتگان عشق بیان کرتے ہیں،اس کی حیثیت بیان کر دیں۔
جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’عشق‘‘ ایک عربی لفظ ہے، جس کا معنی محبت کی زیادتی ہے، اس سے یہ مفہوم پیدا ہوتا ہے کہ عشق، محبت کی بگڑی ہوئی صورت ہے اور جنون کی قسم ہے۔
اور عشقہ، اس زرد رنگ کی بوٹی کو کہا جاتا ہے جو درخت سے لپٹ جاتی ہے، فرط محبت کی وجہ سے عاشق کو اس بوٹی سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ یہ ایک نامناسب اور نازیبا لفظ ہے جس کا پورے قرآن اور ذخیرہ احادیث میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔
سیدنا یوسف علیہ السلام پر جب عزیز مصر کی بیوی فریفتہ ہوئی تو زنان مصر نے بھی اس کے لیے یہ لفظ استعمال نہیں کیا، بلکہ قرآن کریم نے اس کے درج ذیل الفاظ ذکر فرمائے ہیں:
﴿قَدْ شَغَفَہَا حُبًّا﴾[7]
|