ضرورت نہیں، امید ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نیت کے بدلے قربانی کے ثواب سے محروم نہیں کرے گا۔ واللہ اعلم!
کیا قربانی ایک مالی ضیاع ہے؟
سوال: آج کل کچھ لوگوں کی طرف سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ قربانی کا حکم صرف مکہ میں ہے اور یہ حکم بھی حجاج کرام کے لیے ہے، ہم لوگ قیمتی قربانیاں کرتے ہیں، وہ محض مالی ضیاع ہے۔ اس اعتراض کا جواب دیں۔
جواب: قربانی کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ ﴾[1]
’’ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کا طریقہ مقرر کر دیا ہے تاکہ جو جانور ہم نے انہیں عطا کیے ہیں ان پر وہ اللہ کا نام لیا کریں۔‘‘
اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ تمام انبیاء کرام رضی اللہ عنہم کی شریعتوں میں اللہ کے حضور قربانی پیش کرنا ایک لازمی جزو رہا ہے،ا گرچہ اس قربانی کی تفصیلات اور جزئیات میں اختلاف رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں قربانیاں دی ہیں اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اس سنت کو زندہ رکھا۔ حتی کہ یہ مبارک عمل ہم تک پہنچا ہے۔ اس کے متعلق تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں، لیکن افسوس کہ شریعت سے بیزار لوگ اسے گوشت اور مالی ضیاع سے تعبیر کرتے ہیں اور کبھی کہتے ہیں کہ جتنی رقم قربانیوں پر خرچ کی جاتی ہے اتنی رقم سے محتاج لوگوں کے لیے کئی رہائشی منصوبے بنائے جا سکتے ہیں۔کبھی کہا جاتا ہے کہ جتنی رقم قربانی پر صرف کی جاتی ہے، اتنی رقم صدقہ میں خرچ کر دی جائے تو بہتر ہے۔ بہرحال ایسے لوگ مغربیت اور مغربی تہذیب سے مرعوب بلکہ اس کے دلدادہ اور شیدائی ہیں، اگر وہ قربانی سے کئی گنا رقم اپنی عیاشیوں پر خرچ کر دیں تو وہ ان کے نزدیک مالی ضیاع نہیں۔ لیکن قربانی میں انہیں کئی طرح کے نقصانات نظر آنے لگتے ہیں۔ بہرحال یہ لوگ محتاجوں اور بے کسوں کے ہمدرد نہیں ہیں بس ’’خوئے بدرا بہانہ بسیار‘‘ کا مصداق ہوتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عمل پیش کرتے ہیں جو ان حضرات کی تردید کے لیے کافی ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں سو اونٹ بطور قربانی ذبح کیے اور مجھے حکم دیا کہ ان کا گوشت تقسیم کر دوں، میں نے سارا گوشت بانٹ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی جھولیں اور کھالیں بھی تقسیم کرنے کا حکم دیا جو بانٹ دی گئیں۔[2]
بہرحال قربانی، مالی ضیاع نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ واللہ اعلم!
اونٹ میں حصوں کی تعداد
سوال: ہمیں ایک عالم دین نے بتایا ہے کہ گائے کی طرح اونٹ میں بھی سات حصے ہوتے ہیں جبکہ ایک حدیث میں
|