جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے باپ کے سوا کسی اور کی طر ف نسبت کرے، اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔‘‘[1]
بلکہ حضرت سعد بن ابی وقاص اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص جان بوجھ کر اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف اپنی نسبت کرتا ہے اس پر جنت حرام ہے۔‘‘[2]
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایسا شخص جنت کی خوشبو سے بھی محروم کر دیا جائے گا حالانکہ اس کی خوشبو پانچ سو میل کے فاصلے سے محسوس ہوتی ہے۔[3]
لہٰذا لے پالک اور اسے بیٹا بنانے والے کو اپنے موقف پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ (واللہ اعلم)
نا تمام بچے کا نام رکھنا
سوال: اگر حمل کی مدت مکمل ہونے سے قبل بچہ ضائع ہو جائے تو کیا ایسے ناتمام بچے کا نام رکھنا چاہیے؟ نیز اس طرح کے بچے، قبرستان میں دفن کیا جائے یا گھر میں ہی اسے دفنا دیا جائے؟ کتاب و سنت میں اس کے متعلق کیا ہدایات ملتی ہیں؟
جواب: احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ حمل کی مدت جب چار ماہ ہوتی ہے تو اس میں روح پھونکی جاتی ہے، اس کے بعد اگر مدت مکمل ہونے سے پہلے حمل ساقط ہو جائے تو اسے نا تمام بچہ کہا جاتا ہے۔ شریعت میں ایسے بچے کے متعلق احکام بیان ہوئے ہیں کہ ایسے بچے کا جنازہ پڑھا جا سکتا ہے۔
چنانچہ حدیث میں ہے: ’’نا تمام بچے کی نماز جنازہ پڑھی جائے اور اس کے والدین کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا کی جائے۔[4]
ایسے بچے کو قبرستان میں ہی دفن کیا جائے گا، گھر یا کسی دوسری جگہ دفن کرنے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ کتاب و سنت کے مطابق مردوں کو قبرستان میں دفن کرنا ہی مشروع ہے۔ عوام الناس میں یہ بات مشہور ہے کہ نا تمام مردہ بچے کا نام بھی رکھنا چاہیے تاکہ قیامت کے دن اس کی نشاندہی ہو سکے، یہ محض دین خواتین کا حصہ ہے، کتاب و سنت میں ہمیں ایسے نا تمام بچے کا نام رکھنے کے متعلق کوئی رہنمائی نہیں ملتی۔ لہٰذا ایسے بچے کا نام رکھنا درست نہیں اور جن روایات میں اس کا نام رکھنے کی صراحت ہے وہ خود ساختہ اور ناقابل اعتبار ہیں۔
جیسا کہ محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ نے ایسی روایا ت کی نشاندہی کی ہے۔ ان میں سے ایک حسب ذیل ہے: ’’اپنے ناتمام مردہ بچوں کا نام رکھا کرو کیوں کہ وہ قیامت کے دن تمہارے لیے اجر و ثواب کا باعث ہیں۔[5]
|