آواز سے کہیں؟ کتاب و سنت میں اس کے متعلق کیا حکم ہے، وضاحت سے لکھیں۔
جواب: اس میں شک نہیں کہ عمرہ یا حج کے موقع پر با آواز بلند تلبیہ کہنا مشروع ہے۔
جیسا کہ حضرت سائب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میرے پاس حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنے ساتھیوں کو با آواز بلند تلبیہ کہنے کا حکم دوں۔‘‘[1]
اونچی آواز سے تلبیہ کہنا بہت فضیلت رکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا ’’کونسا حج افضل ہے؟‘‘
تو آپ نے فرمایا: ’’جس میں بلند آواز سے تلبیہ پکارا جائے اور قربانی کا خون بہایا جائے۔‘‘[2]
حج سے متعلق اس حکم میں مرد اور عورتیں سب برابر ہیں تاہم کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ خواتین آہستہ آواز سے تلبیہ کہیں کیوں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’عورت تلبیہ کہتے وقت اپنی آواز کو بلند نہ کرے۔‘‘[3]
لیکن یہ روایت عیسیٰ بن ابی عیسیٰ الخیاط کے ضعیف ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہیں۔[4]
اس روایت کے مقابلے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا موقف ہے کہ وہ با آواز بلند تلبیہ کہنے کی فاعل اور قائل ہیں۔
جیسا کہ حدیث میں ہے کہ نفر کی رات سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ باہر نکلے تو انہوں نے بلند آواز سے تلبیہ کہنے کی آواز سنی، آپ نے پوچھا یہ کون ہے؟
لوگوں نے بتایا کہ یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ انہوں نے مقام تنعیم سے عمرہ کا احرام باندھا ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب اس کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’اگر وہ مجھ سے پوچھتے تو میں انہیں اس کا جواب دیتی۔‘‘[5]
حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں اعتدال کا راستہ اختیار کیا ہے، آپ فرماتے ہیں کہ عورت بھی اس قدر بلند آواز سے تلبیہ کہے کہ اس کے ساتھ والی عورتیں اسے سن لیں۔[6]
طواف افاضہ میں تاخیر
سوال: طواف افاضہ میں کسی حد تک تاخیر کی جاسکتی ہے، نیز بتائیں کہ طواف افاضہ کے لیے احرام ضروری ہے یا اسے عام کپڑے پہن کربھی کیا جا سکتا ہے؟
|