حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جن شرائط کے نتیجہ میں تم نے عورتوں کی شرمگاہوں کو حلال ٹھہرایا ہے۔ انہیں پورا کرنا لائق تر ہے۔‘‘[1]
اس حدیث کے پیش نظر جب نکاح کے موقع پر تکمیل تعلیم کی شرط لکھی گئی تھی اور خاوند نے اس پر برضاو ر غبت قبول کیا ہے تو اسے پورا کرنا ضروری ہے، کیوں کہ یہ شرط کتاب و سنت سے متصادم نہیں۔ اگر خاوند اس شرط کو پورا نہیں کرتا تو عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرے۔ تاہم اس سلسلہ میں ہمارا مشورہ یہ ہے کہ اس طرح کی معمولی باتوں کو خاندانی اختلاف کا باعث نہیں بنانا چاہیے، ایسے مسائل کو آپس میں مل بیٹھ کر حل کیا جا سکتا ہے۔ بہتر تعلیم ایک زیور ہے لیکن کردار، ا س سے زیادہ خوبصورت زیور ہے۔ اخلاق و کردار کے ساتھ مرد و زن کو آراستہ ہونا چاہیے اور علم کی برتری بھی صرف اس لیے ہے کہ وہ عمل و کردار کا پیش خیمہ ہو۔ واللہ اعلم!
اجنبی عورت سے بات کرنا
سوال: اجنبی عورتوں سے بات کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ بوقت ضرورت اگر ان سے بات کرنا پڑے تو اس کی کیا حدود و شرائط ہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔
جواب: دین اسلام میں ہر اس کام سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے جو حرام کی طرف لے جائے یا اس کے قریب کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری روحانی ماؤں کے متعلق فرمایا ہے:
﴿يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا﴾[2]
’’اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو، مبادا جس کے دل میں روگ ہو، وہ کوئی برا خیال کرے، ہاں قاعدہ کے مطابق گفتگو کرو۔‘‘
اس طرح کی دیگر آیات کے پیش نظر اہل علم نے اجنبی عورت سے بات چیت کرنے کے کچھ ضوابط بیان کیے ہیں تاکہ فتنہ و فساد کا سدباب ہو، وہ شرائط حسب ذیل ہیں:
٭ مرد، اجنبی عورت تک اس کے محرم یا پھر اپنی محرم عورت کے ذریعے بات نہ پہنچا سکتا ہو۔
٭ یہ گفتگو خلوت و تنہائی میں نہ ہو تاکہ کسی فتنے میں مبتلا نہ ہو جائیں۔
٭ بات چیت کسی جائز اور مباح کام کے لیے ہو، فضول اور بے فائدہ کام کے لیے نہ ہو۔
٭ باہمی کلام کرنے سے کسی فتنے کا اندیشہ نہ ہو۔
٭ عورت کی طرف سے گفتگو میں نرم اور لوچ دار لب و لہجہ نہ ہو۔
|