جوتے پہن کر نماز پڑھنا
سوال :ہمارے ہاں کچھ نوجوان جوتے سمیت نماز پڑھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا مستحب عمل ہے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’یہودیوں کی مخالفت کرو اور جوتوں میں نماز پڑھو۔‘‘ اس حدیث کی کیا حیثیت اور اس کا کیا مطلب ہے؟
جواب: سیدنا موسیٰ علیہ السلام جب کوہ طور پر گئے تو ادب کے طور پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اِنِّيْۤ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى ﴾[1]
’’بلاشبہ میں تمہارا رب ہوں، یقیناً اس وقت تم وادی مقدس طویٰ میں ہو لہٰذا تم اپنے جوتے اتار لو۔‘‘
یہود نے اس حکم کو مطلق طور پر ممانعت پر محمول کیا۔ جس کی بناء پر ان کے نزدیک کسی بھی صورت میں جوتوں سمیت نماز پڑھنا درست نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کی اس شدت کی اصلاح کرتے ہوئے مطلق جواز کو باقی رکھا اور فرمایا: ’’یہود کی مخالفت کرو اور جوتوں میں نماز پڑھو۔‘‘[2]
لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ جوتے پاک ہوں۔ کیوں کہ ناپاکی کی صورت میں انہیں پہن کر نماز پڑھنا درست نہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (باب الصلاۃ فی النعال) ’’جوتوں سمیت نماز پڑھنا۔‘‘[3]
پھر انہوں نے اس سلسلہ میں ایک حدیث بیان کی ہے کہ سعید بن یزید ازدی نے ایک دفعہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوتوں سمیت نماز پڑھ لیتے تھے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں پڑھ لیتے تھے۔[4]
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل دائمی نہیں، جیسا کہ ایک اور حدیث میں صراحت ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوتے اتار کر نماز پڑھ لیتے تھے اور پہن کر بھی۔‘‘[5]
ہمارے رجحان کے مطابق جوتے پہن کر نماز پڑھنے کی رخصت ضرور ہے لیکن اسے درجہ استحباب دے کر دیدہ و دانستہ صاف ستھری مساجد میں جہاں قالین بچھے ہوں، جوتوں سمیت نماز ادا کرنے پر اصرار انتہا پسندی ہے۔ ہمارے بعض شدت پسند نوجوان اسے مردہ سنت خیال کر کے اس کے احیاء کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس فکری غلطی کی اصلاح بہت ضروری ہے۔ شریعت نے اس عمل کو صرف جائز قرار دیا ہے بذات خود یہ مطلوب نہیں۔ عہد نبوی میں مساجد کی حالت اور اس وقت کے جوتوں کی نوعیت پھر ہمارے دور کی بود وباش اور طرز معاشرت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، پھر اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ
|