٭ دوران جماعت مردوں کی پہلی صف کو بہتر قرار دیا گیا ہے جبکہ عورتوں کی آخری صف بہتر ہے۔
یہ فرق نماز سے متعلقہ مسائل میں ہے، نماز کی ادائیگی سے متعلق نہیں۔ اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ نماز کی ہیئت میں فرق کرنا خود ساختہ ہے، کتاب وسنت سے اس کی کوئی دلیل نہیں۔ واللہ اعلم
اذان عصر کا وقت
سوال :وزارت مذہبی امور پاکستان ایک قانون کے ذریعے اسلام آباد کی تمام مساجد میں اذان کے لیے ایک نظام الاوقات نافذ کرنا چاہتی ہے، جس کی رو سے اذان عصر سایہ دو مثل ہونے پر دی جائے گی۔ کیا شرعی طور پر اس کی گنجائش ہے؟ آپ بتائیں کہ اذان عصر کا صحیح وقت کیا ہے؟
جواب: امام نووی رحمہ اللہ نے نماز عصر کے پانچ اوقات بیان کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
فضیلت کا وقت: اس کا اول وقت جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہو جائے۔
اختیاری وقت: جب ہر چیز کا سایہ دو مثل ہو جائے۔ یعنی اس کا سایہ دو گنا ہو جائے۔
وقت جواز: سورج کی دھوپ زرد ہونے تک ہے۔
وقت مکروہ: دھوپ زرد ہونے سے غروب آفتاب تک ہے۔
وقت عذر: وہ ظہر کا وقت ہے جب سفر وغیرہ کے لیے نماز عصر کو ظہر کے ساتھ جمع تقدیم سے پڑھا جاتا ہے۔[1]
ہمارے رجحان کے مطابق نماز عصر کا اول وقت اس وقت شروع ہوتا ہے جب آدمی کا سایہ اس کے برابر ہو جائے۔ چنانچہ بشیر بن سلام کہتے ہیں کہ میں اور محمد بن علی باقر، حجاج بن یوسف کے دور حکومت میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق سوال کیا کہ وہ کن اوقات میں ادا کرتے تھے تو آپ رضی اللہ عنہ نے نماز عصر کے بارے میں فرمایا:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصر اس وقت پڑھی جبکہ سایہ آدمی کے قد اور تسمہ کے برابر تھا۔ پھر اگلے دن نماز عصر اس وقت پڑھی جب آدمی کا سایہ دگنا ہوگیا اور اتنا وقت باقی تھا کہ ایک اونٹ سوار درمیانی تیز چال سے ذوالحلیفہ پہنچ سکتا تھا۔‘‘[2]
سیدنا جبریل علیہ السلام کی امامت والی حدیث میں صراحت ہے کہ پہلے دن انہوں نے نماز عصر اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوگیا اور دوسرے دن نماز عصر اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ دو مثل یعنی دو گنا ہوگیا۔ آخر میں فرمایا:
’’یہ آپ سے پہلے انبیاء کا وقت ہے اور نمازوں کا وقت انہی دو اوقات کے درمیان ہے۔‘‘[3]
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز ان عبادات میں سے ہے کہ سیدنا جبریل علیہ السلام نے محض زبانی القاء کرنے کی بجائے
|