زیورات کے متعلق اتنی تکلیف دیتی تھی جتنی مال دار کی بیوی مطالبات کرتی ہے۔‘‘[1]
اس حدیث کی روشنی میں بیگمات کو بھی چاہیے کہ وہ قناعت اور صبر کی خوگر ہوں۔ واللہ اعلم!
بیوی کے لیے رہائش کا بندوبست
سوال: میری شادی کو پانچ برس ہو چکے ہیں، ہم اپنے سسرال کے گھر میں رہتے ہیں اور اکٹھے ہی کھاتے پیتے ہیں جب کہ مجھے رہائش کا یہ انداز پسند نہیں، کیا میں اپنے خاوند سے الگ رہائش کا مطالبہ کر سکتی ہوں؟
جواب: ہمارے ہاں برصغیر میں بعض مجبوریوں کی بناء پر شادی کے بعد والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ اکٹھے رہنے کا رواج ہے جو بعض اوقات ناگفتہ بہ حالات کا باعث بن جاتا ہے۔ اگر والدین بوڑھے ہوں، نیز بہن بھائی بھی چھوٹے ہوں جن کی دیکھ بھال کرنا ضروری ہو تو کسی حد تک قابل برداشت ہے۔ لیکن جوان بہن بھائیوں کی موجودگی میں کئی ایک قباحتیں ہیں۔ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درج ذیل ارشاد گرامی ہماری رہنمائی کے لیے کافی ہے۔
آپ فرماتے ہیں: ’’عورتوں کے ہاں کھلے بندوں آنے جانے سے پرہیز کرو۔‘‘
یہ سن کر ایک انصاری نے عرض کیا: یارسول اللہ! آپ خاوند کے عزیز و اقارب کے متعلق بتائیں کہ ان کے لیے کیا حکم ہے؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خاوند کے عزیز و اقارب تو موت ہیں۔‘‘[2]
اس حدیث کے پیش نظر خاوند کے بھائی کے ساتھ اس کی بیوی کی خلوت جائز نہیں۔ ہاں اگر وہ چھوٹے ہوں تو ان کی دیکھ بھال کرنے میں چنداں حرج نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خاوند کو پابند کیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ حسن معاشرت کے ساتھ رہے:
﴿وَ عَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾[3]
’’ان بیویوں کے ساتھ بھلے طریقہ سے زندگی بسر کرو۔‘‘
اس حسن معاشرت کا تقاضا ہے کہ اس کے لیے رہائش کا معقول بندوبست کرے، اگر گھر بڑا ہے تو بیوی کے لیے الگ کمرے کا انتظام کیا جائے جہاں ہر چیز کا الگ بندوبست ہو، یعنی وہاں خلوت اور فتنے فساد کا اندیشہ نہ ہو۔ البتہ عورت کے سسر اور ساس اگر بوڑھے ناتواں ہیں اور وہ اپنے بیٹے کے محتاج ہیں، وہاں کوئی دوسرا ان کی خدمت کرنے والا نہیں تو ایسے حالات میں عورت کو چاہیے کہ وہ ان کی خدمت کر کے ثواب دارین حاصل کرے۔ امید ہے کہ ایساکرنے سے ان کی دعائیں اس کے شامل حال ہوں گی اور اللہ تعالیٰ اس کے نتیجے میں وسعت پیدا فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین!
|