مفہوم ہے، وضاحت کریں؟
جواب: سوال میں مذکور حدیث متعدد الفاظ سے مروی ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب رمضان کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔‘‘[1]
ایک روایت میں ہے کہ رحمت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔[2]
ایک اور روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔[3]
ہمارے رجحان کے مطابق آسمان یا جنت یا رحمت کے دروازوں کا کھلنا مبنی برحقیقت ہے، اسے کنایہ یا مجاز پر محمول کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ اگرچہ بعض علماء نے یہ لکھا ہے کہ آسمان کے دروازوں کا کھولنا نزول رحمت سے کنایہ ہے اور جنت کے دروازوں کا کھولنا اس سے مراد اچھے اور نیک کاموں کی توفیق دینا مراد ہے۔
چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اس مفہوم کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہر مسلمان کا حسب توفیق نیک اور اچھے عمل کرنا اور ہلاکت خیز برائیوں سے بچنا، گویا ان پر جنت کے دروازوں کا کھول دینا اور دوزخ کے دروازوں کا بند کر دینا ہے کیوں کہ یہ چیزیں انہیں دوزخ سے بچا کر جنت میں لے جانے والی ہیں۔[4]
بہرحال عقلی طور پر یہ کوئی محال امر نہیں کہ اسے مجاز پر محمول کیا جائے، اسی طرح ماہ رمضان میں شیاطین کو جکڑ دینے سے مراد بھی سرکش قسم کے شیاطین ہیں جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’اس مہینے میں آسمان کے دروازے کھولے اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں نیز اس ماہ میں ہر سرکش شیطان کو باندھ دیا جاتا ہے اور ایک منادی کرنے والا ہر رات یہ اعلان کرتا ہے۔
’’اے خیر کے متلاشی! آگے بڑھ اور اے برائی کے طالب! اب تو رک جا۔‘‘[5]
اس وضاحت سے یہ اعتراض بھی ختم ہو جاتا ہے کہ جب شیاطین کا باندھ دیا جاتا ہے تو لوگ شیطانی حرکات کیوں کرتے ہیں؟ چونکہ بڑے بڑے سرکش شیاطین کو پابند سلاسل کیا جاتا ہے اس لیے چھوٹے شیاطین اپنا کام جاری رکھتے ہیں اور وسوسہ اندازی سے لوگوں کو شیطانی حرکات پر اکساتے رہتے ہیں۔ واللہ اعلم!
چاند کو دیکھ کر روزہ رکھنا
سوال: کیا ماہِ رمضان کا آغاز فلکی حساب، جنتری یا کیلنڈر وغیرہ سے کیا جا سکتا ہے یا اس کے لیے چاند کا دیکھنا ضروری
|