اس حدیث میں بیان کردہ تین چیزوں کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے اہل قبلہ کا لقب اختیار کیا گیا ہے، ویسے لغوی طور پر اہل قبلہ کے حسب ذیل دو معنی ہیں:
٭ کعبہ مشرفہ کو قبلہ سمجھنے والا ٭ قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے والا
اصولیین کے ہاں اس کی اصطلاحی تعریف یہ ہے: ’’اہل قبلہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو تمام ضروریات دین کو تسلیم کرنے پر متفق ہوں۔‘‘
ضروریات دین سے مراد وہ احکام و مسائل ہیں جن کا حصہ شریعت ہونا نظر و استدلال کے بغیر ہی تمام خواص و عوام کے ہاں مسلمہ ہو، جیسے نماز پڑھنا، زکوٰۃ دینا، روزے رکھنا اور حج کرنا وغیرہ۔
تما م اہل اسلام کے ہاں اس کی حیثیت و اہمیت مسلمہ ہے، کسی کو بھی ان سے انکار نہیں۔ خواص سے مراد علماء دین اور ان کی صحبت پانے والے عوام کہلاتے ہیں۔ علماء حضرات کی صحبت و رفاقت سے جو دور رہتے ہیں انہیں ضروریات دین معلوم کرنے کے لیے غوروفکر اور نظر و استدلال کی ضرورت رہتی ہے۔ قرآن کریم نے اسی قسم کے عوام کے متعلق فرمایا ہے؛
﴿اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ كُفْرًا وَّ نِفَاقًا وَّ اَجْدَرُ اَلَّا يَعْلَمُوْا حُدُوْدَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِه﴾[1]
’’یہ صحرائی لوگ کفر و نفاق میں زیادہ سخت ہیں اور ان کے متعلق یہ احکامات زیادہ ہیں کہ وہ اس دین کی حدود سے ناواقف رہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے۔‘‘
درج بالا وضاحت کی روشنی میں ہم کہتے ہیں کہ اگر کوئی کلمہ گو مسلمان اسلامی ماحول سے دور اور اہل علم کی صحبت سے محروم ہونے کی بناء پر کسی دینی ضرورت سے نافہمی، بے خبری اور غفلت سے انکار کر دے تو اسے اہل قبلہ سے خارج نہیں کیا جائے گابلکہ اس کی جہالت کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
بہرحال ضروریات دین کو ماننے والا اہل قبلہ ہے اور جو شخص ضروریات دین کا انکار کرتا ہے، وہ اہل قبلہ نہیں رہتا۔ واللہ اعلم!
نوٹ:… ہم نے اہل قبلہ اور ضروریات دین کی تشریح اپنی شرح بخاری حدیث نمبر ۳۹۱ کے تحت کی ہے، مذکورہ فتویٰ اس کا خلاصہ ہے۔
تمام مساجد میں ایک ہی وقت اذان
سوال: وزارت مذہبی امور پاکستان کا پروگرام ہے کہ اسلام آباد کی تمام مساجد میں ایک ہی وقت اذان دی جائے اسے اتحاد اور یک جہتی کی علامت قرار دیا جا رہا ہے۔کیا شریعت میں اس امر کی گنجائش ہے کہ تمام مساجد میں ایک ہی وقت میں اذان دی جائے؟
جواب: وزارت مذہبی امور اور پاکستان کی طرف سے اتحاد و یکجہتی کا جذبہ نہایت قابل قدر اور لائق تعریف ہے، لیکن
|