ہونا ناممکن ہے ، یورپ میں فرنگی تہذیب سے وابستہ خواتین کتوں سے بدکاری کرتی ہیں لیکن کبھی اس کے نتیجہ میں کوئی نسل پیدا نہیں ہوئی،مجھے اس حوالہ سے اپنے فقہاء کرام سے یہی شکوہ ہے کہ انہوں نے بکری اور کتے کے ملاپ سے ایسا بچہ پیدا ہونے کا مفروضہ قائم کیا جس کا سر کتے جیسا اور باقی دھڑ بکرے جیساپھر اس کے حلال و حرام ہونے کے متعلق وضاحتیں کی ہیں۔ [1]
یہ اس لیے ممکن نہیں کہ کتے کے کروموسوم اٹھہتر (۷۸) جبکہ بکری کے ساٹھ (۶۰) ہیں ان کی تعداد اور خصوصیات میں واضح فرق ہے، البتہ خنزیر اور بھینس کے بچے میں بہت گہری مماثلت ہوتی ہے، اہل لغت خنزیر کی شکل و صورت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں،
’’اس کا سر بھینس کے سر جیسا کہ ہوتا ہے۔‘‘[2]
بیالوجی کے ماہرین نے جب رحم مادر میں ٹھہرے ہوئے بھینس کے بچے کی تصویر لی ہے تو وہ خنزیر کے بچے سے بہت حد تک مماثلت رکھتی ہے، اس لحاظ سے بھینس کے مالک کو شبہ ہو سکتا ہے، پھر جذبات کے ہاتھوں مجبور ہو کر اسے گولی مار دی ہو لیکن وہ خنزیر کا بچہ قطعاً نہیں تھا اور نہ ہی اس قسم کی بھینس کا دودھ حرام ہے۔ واللہ اعلم!
انسانی اعمال میں جنات کی مداخلت
سوال: ہمارے معاشرہ میں کچھ خواتین کسی مرد کو دیکھے بغیر خود کو جنسی عمل میں مبتلا دیکھتی ہیں، اس سلسلہ میں کہا جاتا ہے کہ جنات ایسا کام کرتے ہیں، کیا ایسا ممکن ہے کہ جنات کے عورتوں کے ساتھ اس قسم کی چھیڑ چھاڑ کریں؟ قرآن و حدیث کے مطابق اس کی وضاحت کریں۔
جواب: حقیقت یہ ہے کہ ہم اس قسم کے حساس معاملہ میں لکھنے کے لیے قطعاً تیار نہیں لیکن جب بکثرت اس طرح کی شکایات موصول ہوئیں تو مجبوراً اس نازک موضوع پر قلم اٹھانا پڑا ہے۔
ہماری تحقیق کے مطابق انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا ہے اور جن ایک لطیف اور نظر نہ آنے والا جسم رکھتے ہیں، ان دونوں کا جنسی ملاپ ناممکن ہے، لیکن کچھ عاملین اپنا کاروبار چمکانے کے لیے خود ساختہ واقعات بیان کرتے ہیں پھر وہ آیات و احادیث سے اس کا جواز بھی کشید کرتے ہیں اس لیے ضروری ہے اس موضوع پر ذرا تفصیل سے لکھا جائے۔
محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ نے ابو بکر کلابازی کے حوالے سے ایک روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی تا آنکہ تم میں تمہاری عورتوں سے جنات کی اولاد پیدا ہو گی اور ان کا نسب تم میں عام ہو جائے گا۔‘‘[3]
|