کریں۔ واللہ اعلم!
مسئلہ وراثت
سوال: ایک آدمی فوت ہوا، پس ماندگان میں بیوہ، بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، اس کی جائیداد 80 لاکھ روپیہ ہے۔ قرآن و سنت کے مطابق اسے کیسے تقسیم کیا جائے گا۔ اس کی وصیت یا اس کے ذمے کوئی قرض وغیرہ نہیں۔
جواب: سب سے پہلے اس کی بیوہ کا آٹھواں حصہ نکالا جائے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ﴾[1]
’’اگر میت کی اولاد ہے تو بیویوں کا آٹھواں حصہ ہے۔‘‘
اس کے بعد باقی ماندہ رقم کو سات حصوں میں تقسیم کیا جائے، ان سے دو، دو حصے ایک بیٹے کو اور ایک ایک حصہ بیٹی کو دیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے؛
﴿يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْۤ اَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ﴾[2]
’’تمہاری اولاد کے متعلق اللہ حکم دیتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔‘‘
صورت مسؤلہ میں ۱۰ لاکھ بیوہ کا ہے جو کل رقم کا آٹھواں حصہ ہے۔ باقی ستر لاکھ کے سات حصے کیے جائیں تو ایک حصہ دس لاکھ کا بنتا ہے، ان سے دو حصے یعنی بیس، بیس لاکھ فی لڑکا اور دس، دس لاکھ ایک لڑکی کو دے دیا جائے۔ اس طرح مذکورہ رقم کو تقسیم کر لیا جائے۔ واللہ اعلم!
زندگی میں وراثت کا مطالبہ
سوال: میں اپنے بیٹے کو علیحدہ کرنا چاہتا ہوں، لیکن وہ علیحدہ ہونے سے پہلے میری جائیداد سے اپنا شرعی حصہ مانگتا ہے۔ میں بھی اس کے شرعی حصے پر راضی ہوں، کیا میں اپنی زندگی میں اپنے بیٹے کو اس کا شرعی حق دے سکتا ہوں؟
جواب: شریعت اسلامیہ میں انتقال ملکیت کی دو صورتیں ہیں: اختیاری اور غیر اختیاری۔ اختیاری طو ر پر انتقال ملکیت اگر معاوضے کے ساتھ ہے تو اسے بیع یا اس کے مشابہ عقود کا نام دیا جاتا ہے اور اگر بلامعاوضہ ہو تو ایسا ہبہ یا وصیت کی صورت میں ممکن ہے۔ انتقال ملکیت کی دوسری صورت غیر اختیاری ہے وہ ملکیت کو خود بخود مورث کی طرف سے اس کے ورثاء کی جانب منتقل کر دیتی ہے جس میں مورث کے ارادہ نیت یا اختیار کو کچھ بھی دخل نہیں ہوتا۔ اس لیے اس قسم کے انتقال ملکیت کو شرعی اصطلاح میں ’’وراثت‘‘ کہا جاتا ہے۔
صورت مسؤلہ میں شرعی حصہ لینے دینے پر رضامندی، انتقال ملکیت کی یہ آخری صورت معلوم ہوتی ہے۔ سائل کا منشا یہ
|