دو بہنوں کو نکاح میں لانا
سوال: میرے ایک دوست کی شادی کو پندرہ سال ہو گئے ہیں۔ اس کے ہاں کوئی اولاد نہیں، اس کی بیوی نے کہا ہے کہ میں اپنی ہمشیرہ کو آپ کے نکاح میں لاتی ہوں، سسرال والے بھی ایسا کرنے پر تیار ہیں، کیا دونوں بہنوں کو بیک وقت نکاح میں رکھا جا سکتا ہے؟
جواب: دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں رکھنا حرام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ ﴾[1]
’’تمہارا دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنا حرام ہے، ہاں جو گزر گیا وہ گزر گیا۔‘‘
اس آیت کی رو سے دو بہنوں کو نکاح میں اکٹھا کرنا حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات سے فرمایا تھا: ’’تم مجھے نکاح کے لیے اپنی بیٹیوں اور اپنی بہنوں کی پیشکش نہ کیا کرو۔‘‘[2]
سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، یا رسول اللہ! میری بہن جو ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہے، آپ اس سے نکاح کر لیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم اسے پسند کرتی ہو؟‘‘
انہوں نے عرض کیا، کیوں نہیں، میں تنہا تو آپ کی بیوی نہیں ہوں اور مجھے زیادہ پسند ہے کہ میری بہن بھی خیر و برکت میں میرے ساتھ شریک ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ تو میرے لیے حلال نہیں۔‘‘[3]
امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث پر درج ذیل عنوان قائم کیا ہے: ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور یہ بھی حرام ہے کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرو۔‘‘[4]
اس آیت و احادیث سے معلوم ہوا کہ دو بہنیں (رضاعی ہوں یا حقیقی) ان سے بیک وقت نکاح حرام ہے البتہ ایک کی وفات کے بعد یا طلاق کی صورت میں عدت گزرنے کے بعد دوسری بہن سے نکاح جائز ہے۔ اگر کسی گھر میں دو بہنیں ہیں تو مذکورہ قرآنی حکم معلوم ہونے کے فوراً بعد ایک کو طلاق دے دی جائے۔
ہم حیران ہیں کہ روشن خیالی کے اس دور میں لوگ اس واضح حکم سے کیوں بے خبر ہیں؟ اولاد کی خاطر ایک حرام کام کا ارتکاب کرنا انتہائی قابل مذمت ہے۔ بہرحال دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں رکھنا ناجائز اور حرام ہے۔ ایک مسلمان کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے، ہاں کسی دوسری عورت سے نکاح کیا جا سکتا ہے جو خاوند کے لیے حرام نہ ہو۔ واللہ اعلم!
عیسائی لڑکی سے شادی کرنا
سوال: میں ایک عیسائی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں، جبکہ وہ بری عادتوں اور گندی حرکتوں میں مبتلا رہ چکی ہے۔ کیا
|