سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ طیبہ میں منبر پر کھڑے ہو کر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے خطبہ دیا، جس کے الفاظ حسب ذیل ہیں:
’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا او رآپ پر کتاب نازل فرمائی، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو نازل فرمایا اس میں رجم کی آیت بھی تھی، ہم نے اسے پڑھا، یاد کیا اور سمجھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کی سزا دی اور آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کی سزا دی، مجھے ڈر ہے کہ لوگوں پر ایک لمبا زمانہ گزر جائے گا تو کوئی کہنے والا کہے گا کہ ہم اللہ کی کتاب پر رجم کاحکم نہیں پاتے تو وہ لوگ ایسے فرض کو ترک کرنے سے گمراہ ہو جائیں گے جسے اللہ نے نازل کیا ہ اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں رجم کا حکم عورتوں اور مردوں میں سے ہر ایک پر برحق ہے جس نے زنا کیا اور وہ شادی شدہ ہو۔‘‘[1]
رضاعی بہن سے نکاح
سوال: میری ایک لڑکی سے شادی ہوئی، کافی عرصہ ہم اکٹھے رہے ہیں، اب پتہ چلا ہے کہ میں نے بیوی کی بہن کے ساتھ اس کی ماں کا دودھ پیا ہے، ایسے حالات میں کیا میری بیوی میرے لیے حرام ہے؟
جواب: ہمارے ہاں برصغیر میں بچوں کو دوسری عورتوں سے دودھ پلانے کے متعلق مختلف حالات ہیں، اہل عرب کی ایک ضرورت تھی کہ وہ اپنے بچوں کو دیہاتی ماحول میں رکھتے اور وہاں کی دیہاتی عورت سے دودھ پلاتے جبکہ ہمارے ہاں اس قسم کی کوئی ضرورت نہیں، بلکہ اتفاق سے کسی دوسری عورت سے دودھ پینے کا واقعہ پیش آ جاتا ہے، تاہم دودھ پلانے کے متعلق درج ذیل حقائق کو سامنے رکھنا ہوگا:
٭ دودھ پینے کی وجہ سے جو حرمت ثابت ہوتی ہے وہ دو چیزوں پر موقوف ہے:
ا۔ دودھ بچے کی عمر دو سال مکمل ہونے سے پہلے پلایا گیاہو، دو سال کے بعد دودھ پینے کے احکام مختلف ہیں تاہم ا س سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔
٭ دودھ پینے والے بچے کا تعلق پلانے والی عورت کے تمام رشتے داروں سے قائم ہو جائے گا یعنی دودھ پلانے والی عورت کا خاوند، دودھ پینے والے بچے کا باپ، خاوند کا بھائی، اس کا چچا، عورت کا بھائی اس کا ماموں اور عورت کی اولاد بچے کے بہن بھائی متصور ہوں گے جبکہ عورت کا صرف اس بچے سے تعلق قائم ہو گا جسے اس نے دودھ پلایا ہے۔ اس کے باقی رشتے داروں کے ساتھ عورت کا کوئی تعلق نہیں ہو گا۔
صورت مسؤلہ میں اگر واقعی یہ ثابت ہو جائے کہ لڑکے نے اپنی بیوی کی بہن کے ساتھ اس کی ماں کا دودھ پیا ہے۔ دودھ بھی ایک دو دفعہ نہیں بلکہ پانچ مرتبہ پیا ہے، تو ایسے حالات میں فوراً ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں کیوں کہ یہ نکاح صحیح نہیں۔ اسی طرح کا واقعہ سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے پیش آیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان تفریق کرا دی تھی۔[2]
|