قبرستان میں مجاور بٹھانا
سوال: ہمارے اہل دیہات نے قبرستان میں ایک مجاور بٹھانے کا پروگرام بنایا ہے، تاکہ وہ قبروں کی حفاظت کرے اور اس کی خدمت کے لیے ہر گھر سے کچھ طے شدہ رقم لی جاتی ہے۔ کیا قبروں میں اس طرح مجاور بٹھاناشرعاً جائز ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔
جواب: قبروں میں کون سا خزانہ مدفون ہے، جس کے لیے کسی مجاور کو بٹھانے کی ضرورت ہے، یہ ایک فضول حرکت ہے، دین اسلام اس طرح کے بے فائدہ کاموں کی اجازت نہیں دیتا۔ ۹۷ھ میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بیٹے حسن بن حسن فوت ہوئے تو ان کی شریک حیات حضرت فاطمہ بنت حسین نے ایک سال تک ان کی قبر پر خیمہ لگائے رکھا، خاوند کی شدید محبت نے انہیں اس کام پر مجبور کیا،جب خیمہ اکھاڑ دیا گیا تو ھاتف غیبی سے آواز آئی، ’’کیا انہوں نے اپنی گم شدہ چیز کو حاصل کر لیا۔‘‘ اس کے جواب میں ایک دوسری آواز سنائی دی ’’حاصل کیا ہونا تھا بلکہ مایوس ہو کر واپس چلے گئے ہیں۔‘‘ [1]
ہاتف غیبی سے جو آواز آئی ہے، اس سے اس عمل کے ناپسندیدہ ہونے کا اشارہ ملتا ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ ابن منیر رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے۔[2]
ویسے بھی قبر پر بیٹھنے کی سخت ممانعت ہے۔
چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو پختہ کرنے،ا س پر بیٹھنے اور اس پر عمارت بنانے سے منع فرمایا ہے۔[3]
ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ قبروں پر مت بیٹھو۔[4]
قبروں پر بیٹھنا اور قبروں میں بیٹھنا دونوں کا ایک ہی حکم ہے، اس کے علاوہ قبرستان سے اس قسم کا تعلق رکھنا کئی ایک قباحتوں کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ اس سے اہل قبور سے روحانی فیض لینے کا چور دروازہ کھلتا ہے۔
اس بناء پر ہمارے رحجان کے مطابق اس فضول حرکت کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ اس کے لیے ہر گھر سے مخصوص رقم لے کر مجاور کی ’’خدمت‘‘ کا بندوبست کیا جائے۔ ایک دوسرے پہلو سے بھی اس کی قباحت واضح ہے کہ قبرستان میں نماز وغیرہ نہیں پڑھی جا سکتی،لہٰذا ایک بے نماز ہی قبروں کی مجاوری کر سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے فضول کاموں سے محفوظ رکھے اور شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے۔آمین
قبر پر قرآن خوانی
سوال: میت کو دفن کرنے کے بعد ہمارے ہاں قبر پر قرآن خوانی کا رواج ہے، اسی طرح اپنے گھروں میں بھی ایصال
|