’’اور اگر تم نے ان عورتوں کو خزانہ بھی بطور حق مہر دیا ہو تو اس سے (طلاق کے وقت) کچھ واپس نہ ہو۔‘‘
شاہ حبشہ نجاشی نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے چار ہزار درہم مہر دیا تھا۔ [1]
لیکن دکھاوے اور یاکاری کے طور پر زیادہ مہر مقرر کر لینا یا کروا لینا اور پھر اسے ادا نہ کرنا یکسر غلط ہے،اسی طرح وسعت ہونے کے باوجود برائے نام مہر مقرر کرنا بھی درست نہیں ۔ حق مہر کم یا زیادہ طاقت کے مطابق ہونا چاہیے اور اس کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں اگر کوئی دوسرا کفیل بن جائے تو بھی درست ہے بلکہ نیکی میں تعاون ہے۔ (واللہ اعلم)
زیادہ افراد پر مشتمل بارات اور پر تکلف ولیمہ
سوال: ہمارے معاشرے میں شادی کے موقع پر بہت اسراف سے کام لیا جاتا ہے، پہلے تو بارات میں بہت سے افراد کو دعوت دی جاتی ہے پھر ولیمہ کے موقع پر بھی انواع و اقسام کے کھانے تیار کیے جاتے ہیں، ان کی شرعی حیثیت واضح کریں۔
جواب: اسلام ہر کام میں اعتدال کو پسند کرتا ہے، جیسا کہ اخراجات کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ لَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا﴾[2]
’’اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ اسے بالکل ہی کھول دے کہ پھر ملامت کیا ہوا اور درماندہ بیٹھ جائے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اخراجات کے متعلق ہدایات ہیں کہ انسان نہ تو بخل سے کام لے کہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضرورت پر بھی خرچ نہ کرے اور نہ اس سلسلہ میں حد سے تجاوز کرے کہ اپنی وسعت اور گنجائش کو دیکھے بغیر بے دریغ خرچ کرتا رہے۔
صورت مسؤلہ انتہائی تکلیف دہ ہے، شادی یا غمی کے موقع پر اپنے عزیز و اقارب اور دوست احباب کو کسی اہم مقصد کے بغیر جمع کرنا کوئی سنت نہیں، اس میں اپنی دولت مندی کا اظہار اور محض نمودونماش ہے۔ ایک چھوٹی سی بستی مدینہ طیبہ میں رہتے ہوئے سیدنا حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ایک انصاری عورت سے شادی کی لیکن کائنات میں سب سے زیادہ محبوب ہستی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے متعلق کوئی خبر نہ دی گئی، شادی کے اگلے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زعفران کے زرد نشانات دیکھے تو پوچھا، عبد الرحمن! یہ کیا ہے؟
انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے ایک عورت سے شادی کر لی ہے۔
آپ نے فرمایا: ’’ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی کا ہو۔‘‘[3]
اسلام میں بارات کا کوئی تصور نہیں، متعدد حضرات و خواتین پر مشتمل لمبی چوڑی بارات گویا ہم کوئی قلعہ فتح کرنے جا رہے ہیں۔ پھر ان کی پرتکلف دعوت، بے پردگی، بے ہودگی، موسیقی، اسی طرح ولیمے میں انواع و اقسام کے کھانوں کی بھرمار اور دیگر رسومات، اسلام کے مزاج کے خلاف ہیں، اس اسراف و تبذیر اور فضولیات کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
|