دے دی۔ میں نے مسجد میں خیمہ لگا لیا، سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے سنا تو انہوں نے بھی آپ کی اجازت سے خیمہ لگا لیا۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے سنا تو انہوں نے بھی خیمہ کا بندوبست کر لیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح اٹھے تو آپ کی نظر چار خیموں پر پڑی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘
آپ کو حقیقت حال سے آگاہ کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’انہوں نے ثواب کی نیت سے یہ کام نہیں کیا، اس لیے ان خیموں کو اکھاڑ دیا جائے، میں انہیں اچھا خیال نہیں کرتا۔‘‘
چنانچہ وہ اکھاڑ دئیے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رمضان میں اعتکاف نہیں کیا بلکہ شوال کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا۔[1]
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ رمضان اور غیر رمضان میں اعتکاف کیا جا سکتا ہے۔
چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
((باب الاعتکاف فی شوال)) [2]
’’ماہ شوال میں اعتکاف کرنا۔‘‘
اگرچہ مسنون یہی ہے کہ آدمی ثواب کی نیت سے مسجد میں رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرے۔ واللہ اعلم!
افطاری کا وقت
سوال: کچھ لوگ غروب آفتاب کے بعد احتیاط کے طور پر مزید کچھ منٹ انتظار کر کے روزہ افطار کرتے ہیں، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب: جب سورج غروب ہو جائے اور مشرقی افق سے سیاہی نمودار ہو تو روزہ افطار کر دینا چاہیے، بلاوجہ تردد یا شک میں پڑ کر دیر نہیں کرنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’جب رات سامنے آئے یعنی مشرقی افق سے سیاہی نمودار ہو جائے، دن پلٹ جائے اور سورج غروب ہو جائے تو روزہ افطار کرنے کا وقت ہو گیا، اب روزے دار کو روزہ افطار کر دینا چاہیے۔‘‘[3]
جلدی کا مطلب یہ نہیں کہ آفتاب کے غروب ہونے سے پہلے روزہ افطار کر لیا جائے بلکہ غروب آفتاب کا یقین ہونے کے بعد روزہ افطار کیا جائے، اسی میں خیر و برکت ہے۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’لوگ جب تک افطار میں جلدی کریں گے خیر و برکت میں رہیں گے۔‘‘[4]
ایک دوسری حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
|