پھونکے جانے سے قبل کا ہے،کیوں کہ ’’ما‘‘ غیر جاندار کے لیے آتا ہے اور جب اس میں روح پھونک دی جاتی ہے تو وہ ’’ما‘‘ کی حدود سے نکل جاتا ہے۔ جب تک جنین ’’ما‘‘ کی حدود میں رہتا ہے کوئی بھی ڈاکٹر جدید طبی آلات سے اس کے نر یا مادہ ہونے کا سراغ نہیں لگا سکتا، جب اس میں روح پھونک دی جاتی ہے تو اس کے نر یا مادہ ہونے کا علم تعینات شدہ فرشتے کو بھی ہو جاتا ہے۔ اس مرحلے میں ڈاکٹر حضرات بھی قسمت آزمائی شروع کر دیتے ہیں، لیکن پھر بھی وہ اس کے کالے گورے،اچھے برے ، اس کے رزق اور اس کی موت کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں کر سکتے اور نہ ہی اس کی لیاقت و استعداد اور دماغی قوتوں کا پتہ چلایا جا سکتا ہے۔
یہ چیزیں اور اس کے علاوہ اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔
آخر میں ہم اس امر کی طرف بھی اشارہ کرنا چاہتے ہیں کہ اگر حاملہ عورت کے رحم میں پرورش پانے والا بچہ کسی مرض میں مبتلا ہے یا اس کی افزائش اور پرورش صحیح نہ ہو رہی ہو تو جدید طبی آلات سے مدد لے کر اس پر کنٹرول کرنا جائز اور مشروع ہے۔ کیوں کہ بیماریوں کے علاج کی شریعت نے ترغیب دی ہے لیکن حمل کے متعلق دلچسپی رکھنا کہ وہ لڑکا یا لڑکی، اس قسم کی معلومات لینے کے لیے ڈاکٹر کے پاس جانا اور فضول شوق کی خاطر پیسے خرچ کرنا حماقت اور بے وقوفی ہے، اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اس کا نقصان بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ جب کسی سرپرست کو پتہ چلتا ہے کہ پیٹ میں پرورش پانے والی لڑکی ہے تو یہ ’’افسوسناک‘‘ خبر سن کر رحم کی صفائی کروا دیتے ہیں اور پیٹ میں پرورش پانے والے بچہ کو ضائع کر دیتے ہیں۔ اخبارات میں ایسی خبریں بھی آتی ہیں کہ ضائع کیا جانے والا حمل لڑکی نہیں بلکہ لڑکا تھا پھر اُن کا غم دیدنی ہوتا ہے۔ لیکن اب وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ بہرحال ہم ڈاکٹر حضرات سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ وہ دنیاوی مفاد اور چند ٹکے بٹورنے کے لیے اس قسم کے شوق فضول کی حوصلہ افزائی نہ کریں اور حمل کو ضائع کرنے کے جرم میں شریک ہونے سے اجتناب کریں۔ اگر کوئی رحم مادر میں پرورش پانے والا بچہ واقعی کسی مرض میں مبتلا ہے تو جدید آلات کے ذریعے اس مرض کی تشخیص کریں اور اس کے علاج کی طرف توجہ دیں۔ اس قسم کا تعاون توکیاجا سکتا ہے لیکن استقرار حمل کے بعد باقاعدہ فائل تیار کرنا اور ہر مہینے اس کی رپورٹ تیار کرنا پھر اس کے نر یا مادہ ہونے کے متعلق اہل خانہ کو مطلع کرتے رہنا، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ واللہ اعلم!
ناجائز حمل کا اسقاط
سوال: ہمارے معاشرہ میں رسوائی اور بدنامی سے بچنے کے لیے ناجائز حمل کو گرا دیا جاتا ہے، کیا ایسا کرنا قتل ناحق ہے، اور کیا ڈاکٹر اور نرسوں کو اس سلسلہ میں تعاون کرنا چاہیے؟ کتاب وسنت کی روشنی میں اس مسئلہ کی وضاحت کریں۔
جواب: مغربی ممالک میں زنا کے ارتکاب کے بعد حاملہ ہونے کی صورت میں ناجائز حمل کو ساقط کرا دیاجاتا ہے کیوں کہ زانی مرد اور عورت کو جنسی تلذذ سے سروکار ہوتا ہے، انہیں بچے اور حمل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ہمارے اسلامی ممالک میں جنسی جرائم بڑی تیزی سے پھیل رہے ہیں، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ روشن خیالی، مخلوط تعلیم اور جنسی آزادی کی آڑ میں عریانی اور
|