طرح کی خرید و فروخت جائز ہے، وضاحت کریں؟
جواب: ہمارے ہاں جو کئی سال تک کے لیے باغات ٹھیکے پر دئیے جاتے ہیں ، احادیث کی رو سے ناجائز ہے۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’پھلوں کا سودا نہ کرو حتیٰ کہ ان کی صلاحیت معلوم ہو جائے۔ آپ نے بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کو روکا ہے۔‘‘[1]
صلاحیت سے مراد وہ کیفیت ہے جس کے بعد عام طور پر اس پر آفت کا احتمال نہیں رہتا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھل پکنے سے پہلے ان کو فروخت کرنے سے منع فرمایا، پوچھا گیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! پکنے کا کیا مطلب ہے تو آپ نے فرمایا: ’’وہ سرخ ہو جائیں۔‘‘[2]
جب موجودہ پھل جو ابھی تک کھانے کے قابل نہیں ہوا اس کی خرید و فروخت شرعاً ناجائز ہے تو آئندہ کئی سالوں تک ٹھیکہ کیسے جائز ہو سکتا ہے جب کہ ان کا پھل بالکل معدوم ہوتا ہے۔ اس ممانعت کی وجہ بالکل واضح ہے کہ اس میں دھوکہ ہی دھوکہ ہے، اس کے علاوہ یہ ایک مجہول چیز کی خرید و فروخت ہے جس کی شرعاً اجازت نہیں۔ پھر یہ ایسی چیز کی بیع ہے جو بیچنے والے کے پاس نہیں، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’جو چیز تیرے پاس نہیں اسے مت بیچو۔‘‘[3]
ان تمام احادیث کا تقاضا ہے کہ کئی سالوں تک کے لیے باغات کا ٹھیکہ لینا جائز نہیں۔ اس کے علاوہ ایک صریح حدیث بھی اس سلسلہ میں وارد ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی سال کے لیے پھل بیچنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کی خرید و فروخت میں سراسر دھوکہ اور فراڈ ہے۔ واللہ اعلم!
مسئلہ وراثت
سوال: ایک آدمی فوت ہوا، پس ماندگان میں بیٹی، پوتی اور ایک بھائی ہے، ترکہ سے ہر ایک کو کتنا کتنا حصہ ملے گا؟
جواب: صورت مسؤلہ میں میت کے ذمے قرض کی ادائیگی اور نفاذ وصیت (اگر ہے) کے بعد ترکہ کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ بیٹی کو کل ترکہ سے نصف دیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ اِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ﴾[4]
’’اگر ایک بیٹی ہے تو اسے نصف دیا جائے۔‘‘
پوتی کو چھٹا حصہ دے کر (کی تکمیل کر دی جائے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کیا تھا کہ بیٹی کو نصف
|