اذان و نماز
نماز باجماعت کی فضیلت
سوال :نماز، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے بندوں پر ایک اہم فریضہ ہے، لیکن اسے باجماعت ادا کرنے کے متعلق اس کی فضیلت میں اختلاف کیوں ہے؟ کسی حدیث میں پچیس درجے اضافہ کی فضیلت بیان ہوئی ہے اور کسی میں ستائیس درجے ہے اس کی وضاحت کر دیں۔
جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز باجماعت ادا کرنے کی بہت فضیلت ہے۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نماز باجماعت اکیلے شخص کی نماز سے ستائیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔‘‘[1]
جبکہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے بیان کردہ حدیث میں ہے کہ جماعت کی نماز اکیلے شخص کی نماز سے پچیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔[2]
بظاہر ان احادیث میں درجات کی تعداد کے متعلق تعارض ہے لیکن محدثین کرام نے اس تعارض کو درج ذیل صورتوں میں دور کیا ہے:
٭… امام ترمذی رحمہ اللہ نے سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کو راجح قرار دیا ہے جس میں پچیس درجات کا بیان ہے اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث کو مرجوح کہا ہے جس میں ستائیس درجے بیان ہوئے ہیں اور اس حدیث کو انہوں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے منفردات و غرائب میں شمار کیا ہے، لیکن اس توجیہ پر دل مطمئن نہیں کیوں کہ بلاوجہ ایک حدیث کو مہمل قرار دینا محل نظر ہے۔ ایسی توجیہ کی جائے جس میں دونوں احادیث کا مفہوم اپنی اپنی جگہ پر صحیح برقرار رہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں:
٭ درجات کے اعتبار سے کم تعداد والی روایت کو ابتدائی طور پر محمول کیا جائے اور زیادہ والی کو انتہاء قرار دیا جائے کیوں کہ اللہ کی رحمت سے یہ بعید ہے کہ وہ کوئی چیز دے کر پھر اسے واپس لے لے۔
٭ درجات کا یہ تفاوت نمازیوں کے کم و بیش ہونے پر ہے، اگر نمازی کم ہیں تو پچیس درجے اور اگر زیادہ ہیں تو ستائیس
|