حدیث میں ہے:
’’جو عورت بھی قبل از رخصتی حق مہر، تحائف یا وعدہ پر نکاح کرتی ہے، وہ اس کی ملکیت ہوتے ہیں۔‘‘ [1]
ان تحائف کو حیلوں بہانوں سے واپس لینا بھی بہت گناہ ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے:
’’تحفہ دے کر واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے اسے چاٹتا ہے۔‘‘ [2]
بہرحال عورت کو شادی کے موقع پر جو تحائف ملتے ہیں وہ اس کی مالک ہے، اور اسے تصرف کرنے کا پورا پورا ختیار ہے، کوئی دوسرا اس میں حق دار نہیں ہوتا۔ ہاں اگر وہ اپنے دل کی خوشی سے کسی کو دے دے تو الگ بات ہے، اس پر اس کے متعلق کوئی دباؤ وغیرہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ (واللہ اعلم)
خاوند کا انتخاب
سوال: ایک عورت کو اپنے رفیق حیات کے انتخاب کے لیے کیا چیز دیکھنا ہوتی ہے، آج کل تو مال و متاع کو دیکھا جاتا ہے،شریعت نے نکاح کے لیے کون سے امور کی نشاندہی کی ہے؟
جواب: شریعت میں خاوند کے انتخاب کے لیے دین اور اخلاق کو ترجیح دی گئی ہے، جہاں تک حسب و نسب اور مال و متاع کا تعلق ہے تو اس کی حیثیت ثانوی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص آئے جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کر دو۔‘‘[3]
ایمان دار اور صاحب کردار خاوند کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اگر وہ اسے بیوی بنا کر رکھے گا، تو اچھے طریقے سے رکھے گا اور اگر چھوڑے گا تو احسان کے ساتھ چھوڑے گا۔ اس کے علاوہ دین و اخلاق سے متصف خاوند، عورت اور اس کی اولاد کے لیے بھی باعث خیر و برکت ہوگا۔ بہرحال ہمارے معاشرے میں دولت و دنیا کو دیکھا جاتا ہے جو کسی صورت میں ثمر آور ثابت نہیں ہوتا۔ اس بناء پر ہم کہتے ہیں کہ خاوند کے انتخاب کے لیے دینداری اور اچھے اخلاق کو دیکھا جائے اور دنیا کا مال و متاع، نکاح کا معیار نہیں ہونا چاہیے۔ (واللہ اعلم)
مسلمان عورت کا عیسائی سے شادی کرنا
سوال: کیا مسلمان عورت، عیسائی مرد سے شادی کر سکتی ہے جبکہ وہ اسلام میں دلچسپی رکھتا ہو اور اس نے وعدہ کیا ہو کہ شادی کے بعد وہ مسلمان ہو جائے گا؟
جواب: مسلمان عورت کا کسی بھی کافر مرد سے شادی کرنا حرام اور ناجائز ہے، اگرچہ وہ اسلام میں رغبت رکھتا ہو اور شادی
|