عدالتی خلع کی حیثیت
سوال: پچھلے دنوں اسلامی نظریاتی کونسل نے عدالتی خلع کے متعلق کچھ سفارشات حکومت کو پیش کی ہیں کہ مروجہ عدالتی خلع میں شوہر کی رضامندی کے بغیر عدالت یک طرفہ ڈگری جاری کرتی ہے جو کہ درست نہیں۔ اس سفارش کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں؟ اس کے متعلق ہماری رہنمائی کریں۔
جواب: اللہ تعالیٰ نے نکاح کے موقع پر خاوند بیوی کی رضامندی کو بنیادی حیثیت دی ہے، اسلام میں ایسے نکاح کی کوئی گنجائش نہیں جس میں مرد اور عورت کی رضامندی شامل نہ ہو۔ اسی طرح اگر نکاح کے بعد مرد و زن میں ایسا اختلاف ہو جائے جس کا کوئی حل نظر نہ آئے تو اسلام نے اس کا متوازن طریقہ سے حل پیش کیا ہے۔ وہ اس طرح کہ خاوند کے لیے طلاق کا طریقہ تجویز کیا ہے اور تفریق کے لیے عورت کو خلع کا حق دیا ہے۔ خلع کے ذریعے عورت اپنے شوہر کو حق مہر واپس کر کے اس سے علیحدگی حاصل کر سکتی ہے، اس خلع کی دو اقسام حسب ذیل ہیں:
٭ اپنے گھر میں ہی معاملہ کو حل کر لیا جائے اورعورت کے مطالبہ پر خاوند اپنی بیوی سے حق مہر وصول کر کے اسے آزاد کر دے۔
٭ اگر شوہر اس پر رضامندنہ ہو تو عورت عدالت سے رجوع کر کے اپنا حق خلع حاصل کر لے۔ اس سلسلہ میں قاضی کا فیصلہ شرعی حیثیت رکھتا ہے جس پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔
اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے:
﴿فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلَا تَعْتَدُوْہَا﴾[1]
’’اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں میاں بیوی حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے تو ان دونوں کے درمیان یہ معاملہ طے ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی اختیار کر لے، یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدیں ہیں ان سے تجاوز نہ کرو۔‘‘
حدیث میں اس کی وضاحت آتی ہے کہ سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، اور عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں ثابت بن قیس پر دینداری اور اخلاق میں کوئی عیب نہیں لگاتی مگر میں یہ نہیں چاہتی کہ مسلمان رہتے ہوئے اس کی ناشکری میں مبتلا ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو باغ اس نے تمہیں دیا تھا اسے واپس کرتی ہو؟‘‘
وہ کہنے لگی: ’’جی ہاں‘‘ اس نے باغ واپس کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو حکم دیا اور اس نے بیوی کو جدا کر دیا۔‘‘[2]
اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحیثیت قاضی سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ سے اس کی رضامندی کے متعلق
|