کہ یہ تو ہم سے بھی زیادہ طاقتور ہیں۔[1]
اگرچہ اس وقت یہ رمل ایک خاص مقصد کے پیش نظر شروع ہوا تھا اور آج کل وہ صورت حال نہیں تاہم پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے رمل کو ترک نہیں کیا جا سکتا تاکہ عروج اسلام کا دور بھی یاد رہے۔
چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی فرمایا: ’’اگرچہ اب وہ صورت تو نہیں لیکن اس کے باوجود ہم کسی ایسی چیز کو نہیں چھوڑیں گے جسے ہم عہد رسالت میں کیا کرتے تھے۔‘‘[2]
واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر بھی طواف قدوم کرتے ہوئے رمل کیا تھا۔ حالانکہ اس وقت مشرکین کو کچھ دکھانا مقصود نہیں تھا۔ اس وقت صرف اتباع کے پیش نظر رمل کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ اس موقعہ پر حجر اسود سے حجر اسود تک پورے چکر میں رمل کیا گیا۔[3]
یاد رہے کہ رمل صرف طواف قدوم میں ہے، طواف زیارتِ یا طواف وداع میں رمل نہیں ہوتا۔
چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے۔[4]
عورتوں کے لیے رمل کرنا مشروع نہیں۔
چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’اے خواتین! تمہارے ذمے رمل نہیں ہے۔‘‘[5] سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔[6]
بہر حال مردوں کے لیے آج بھی رمل مشروع ہے اور طواف قدوم کے پہلے چکروں میں کرنا چاہیے، خواتین اس سے مستثنیٰ ہیں۔ واللہ اعلم
حج کی اہمیت
سوال: ہمارے ہاں کچھ لوگ صاحب حیثیت ہوتے ہیں اور جسمانی طور پر بھی حج کرنے کی ہمت رکھتے ہیں، لیکن اولاد کی شادی کا بہانہ بنا کر حج نہیں کرتے، ایسے لوگوں کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔
جواب: تندرست اور صاحب حیثیت انسان پر عمر میں ایک مرتبہ حج کرنا ضروری ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا﴾[7]
’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہے وہ اس کا حج کرے۔‘‘
|