درمیان نفرت ڈالنے کی کوشش نہ کرے، کیوں کہ حدیث میں اس کے متعلق سخت وعید آئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو کسی عورت کو اس کے شوہر کے خلاف ابھارتا ہے۔‘‘[1]
اس حدیث کے پیش نظر سائل کو چاہیے کہ وہ اس رشتے کو جوڑنے کی کوشش کرے، کسی قسم کے منفی کردار کی شرعاً اسے اجازت نہیں۔
٭ ممانی کو چاہیے کہ وہ کسی کی انگیخت میں آ کر بلاوجہ اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ وہ کسی دوسرے سے نکاح کرے۔
حدیث میں ہے: ’’جو عورت کسی وجہ کے بغیر اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے اس پرجنت کی خوشبو بھی حرام ہے۔‘‘[2]
اس حدیث کے پیش نظر سائل کی ممانی کو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے اور اپنے خاوند کو خوش رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ان تمہیدی گزارشات کے بعد ہم اصل مسئلہ کی وضاحت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ النساء میں ان خونی، رضاعی اور سسرالی رشتوں کی فہرست بیان کی ہے، جو حرام ہیں اور ان سے نکاح کرنے کی اجازت نہیں۔[3]
ان رشتوں میں ممانی کا ذکر نہیں ہے، اس لیے ممانی سے نکاح کیا جا سکتا ہے۔ بشرطیکہ اس کا خاوند اسے طلاق بائن دے کر اپنے آپ سے الگ کر دے اور وہ اپنی عدت کے ایام پورے کر لے۔ لیکن یہ کسی صورت میں جائز نہیں کہ سائل اپنی ممانی کو اس کے خاوند سے متنفر کرے تاکہ وہ اس سے طلاق لے کر اس کے ساتھ شادی کرے۔ واللہ اعلم!
شوہر دیدہ عورت کے لیے ولی کی ضرورت
سوال: اگر کسی عورت کا خاوند فوت ہو جائے یا وہ مطلقہ ہو تو کیا اسے پھر عقد ثانی کے لیے ولی کی ضرورت ہے، یا وہ اپنا نکاح کرنے میں خود مختار ہے، قرآن و حدیث میں اس کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟
جواب: شوہر دیدہ عورت کے نکاح کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’شوہر دیدہ اپنی ذات کے متعلق اپنے سر پرست کی بہ نسبت زیادہ حق دار ہے۔‘‘[4]
ایک روایت میں ہے کہ سرپرست کو بیوہ کے معاملہ میں کوئی دخل حاصل نہیں، یعنی وہ خود مختار ہے۔[5]
اس قسم کی دیگر احادیث سے کچھ حضرات نے جو مسئلہ کشید کیا ہے کہ جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے یا وہ مطلقہ ہو تو اسے اپنے سرپرست کی کوئی ضرورت نہیں، وہ اپنا نکاح کرنے میں خود مختار ہے۔ حالانکہ احادیث کا قطعاً یہ منشا نہیں کیوں کہ دین اسلام میں سرپرست کی اجازت صحت نکاح کے لیے بنیادی شرط ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ زندگی کے اہم فیصلے میں عورتوں پر جبر
|