پھر آپ رحمہ اللہ نے چند احادیث سے اس مسئلہ کا استنباط کیا ہے کہ عیدگاہ سواری پر جانا بھی جائز ہے۔ اس عنوان کی تشریح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’شاید امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کو قائم کر کے نماز عید کے لیے پیدل جانے کے استحباب کے متعلق احادیث کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے، یعنی امام بخاری رحمہ اللہ عیدگاہ میں پیدل اور سوار ہو کر جانا دونوں طرح جائز سمجھتے ہیں۔‘‘[1]
پیدل جانے کے متعلق سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث مندرجہ ذیل ہے:
’’عیدگاہ کی جانب پیدل جانا مسنون عمل ہے۔‘‘[2]
اگرچہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو حسن کہا ہے۔[3]
تاہم اس کی سند میں ایک راوی حارث اعور ہے جسے امام نووی رحمہ اللہ نے بالاتفاق کذاب کہا ہے۔ لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔[4]
اس حدیث کے متعلق امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’اکثر اہل علم کا اس پر عمل ہے کہ وہ عید کے لیے مردوں کا پیدل جانا پسند کرتے ہیں اور یہ کہ کوئی عذر کے بغیر سوار ہو کر نہ جائے۔‘‘
صورت مسؤلہ میں سائل کا گھر عیدگاہ سے کافی دور ہے، جس کی بناء پر وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ سوار ہو کر آتے ہیں، ان کا یہ عذر معقول ہے، اس بناء پر اس کے سوار ہو کر آنے میں چنداں حرج نہیں۔ اکثر اہل علم کہتے ہیں کہ عیدگاہ پیدل جانا مستحب ہے اور سواری پر جانا جائز ہے۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’عیدین میں مسنون افعال میں سے پیدل چل کر جانا بھی ہے۔‘‘[5]
’’جمعۃ المبارک‘‘ یا صرف ’’جمعہ‘‘
سوال :ہماری کلاس میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا کہ جمعۃ کے دن کو جمعۃ المبارک کہا جاتا ہے، اس دن میں کیا خصوصیات ہیں جن کی بناء پر اسے جمعۃ المبارک کہا جاتا ہے؟ حالانکہ خصوصیت کے ساتھ اس دن کا روزہ رکھنے سے ہمیں منع کیا گیا ہے۔
جواب: جمعہ کا دن کئی ایک خصوصیات کا حامل ہے، جن میں کچھ حسب ذیل ہیں:
٭ ہم مسلمانوں کے لیے جمعہ کا دن بطور قومی تہوار ہے، جس طرح یہود کے لیے ہفتہ اور عیسائیوں کے لیے اتوار ہے۔ ہم اس دن میں بطور خاص اللہ کی عبادت بجا لانے پر مامور ہیں جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
|