مانتے۔ حکومت کو اس مسئلے کا کوئی قانونی حل نکالنا چاہیے کہ ولدیت کے خانہ میں نگران، پرورش کنندہ اور رضاعی باپ کا اضافہ ہونا چاہیے تاکہ اس سلسلہ میں کسی کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ بہرحال شرعی طور پر جس کی بیوی نے بچے کو دودھ پلا دیا ہے وہ بچے کا رضاعی باپ ہے۔ (واللہ اعلم)
لے پالک کی نسبت
سوال: میں قطر میں رہائش پذیر ہوں اور میرے ہاں کوئی اولاد نہیں۔ میں اپنے بھائی کا نوزائیدہ بیٹا اپنے ساتھ قطر لے جانا چاہتا ہوں، وہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ اس کے ب فارم اور پاسپورٹ میں اپنی ولدیت لکھاؤں، کیا شرعی طور پر اس میں کوئی قباحت تو نہیں؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تو لوگ اس زید بن محمد کہہ کر پکارتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اس غلط رسم کی اصلاح فرمائی اور اس کے متعلق قرآن مجید میں ذیل کی آیات نازل ہوئیں:
﴿وَ مَا جَعَلَ اَدْعِيَآءَكُمْ اَبْنَآءَكُمْ ذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاهِكُمْ وَ اللّٰهُ يَقُوْلُ الْحَقَّ وَ هُوَ يَهْدِي السَّبِيْلَo اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىِٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ١ ﴾[1]
’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے حقیقی بیٹے نہیں بنایا۔ یہ تو تمہارے منہ کی باتیں ہیں مگر اللہ حقیقی بات کہتا ہے اور وہی صحیح راہ دکھاتا ہے، تم ان (منہ بولے بیٹوں کو) ان کے باپوں کے نام سے پکارا کرو۔‘‘
چنانچہ حدیث میں صراحت ہے کہ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو لوگوں نے سیدنا زید رضی اللہ عنہ کو زید بن محمد کی بجائے زید بن حارثہ کہنا شروع کر دیا۔[2]
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کو اس کے حقیقی باپ کی نسبت سے ہی پکارنا چاہے، لہٰذا سائل کو شرعاً یہ اجازت نہیں کہ نوزائید کا ب فارم یا پاسپورٹ بنانے کے لیے اس کی اصل ولدیت کی بجائے اپنی ولدیت لکھا دے۔
مذکورہ بالا آیت میں جس طرح عام اہل ایمان کو حکم ہے کہ وہ کسی شخص کو اس کے حقیقی باپ ہی کی طرف منسوب کریں، اس کی نسبت کسی دوسرے شخص کی طرف نہ کریں۔ اس طرح یہ بھی حکم ہے کہ کوئی شخص خود بھی اپنے آپ کو اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی دوسرے شخص یا کسی دوسری قوم کی طرف منسوب نہ کرے، کیوں کہ ایسا کرنا کبیرہ گناہ ہے۔
چنانچہ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے دوسرے شخص کو جان بوجھ کر اپنا باپ بنایا وہ کافر ہو گیا اور جو شخص اپنے آپ کو کسی دوسری قوم کا فرد بنائے وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے۔‘‘[3]
ہاں اگر کوئی کسی برخوردار کو پیار سے بیٹا یا بیٹی کہہ دے یا کسی کا احترم ملحوظ رکھ کر کسی بزرگ کو باپ یا کسی بزرگ عورت کو
|