ہے، اس قسم کے انتقال ملکیت کو ’’وراثت‘‘ کہاجاتا ہے۔
صورت مسؤلہ میں ’’شرعی حصہ‘‘ لینے دینے پر اظہار رضا مندی، انتقال ملکیت کی یہ دوسری صورت معلوم ہوتی ہے۔ لیکن سائل کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس غیر اختیاری انتقال ملکیت کو اپنے ارادہ و اختیار سے اپنے ورثاء کی طرف منتقل کر دے بشرطیکہ شریعت اس کی اجازت دے، لیکن شریعت میں ایسا کرنا جائز نہیں۔ کیوں کہ انتقال ملکیت کی اس صورت میں وراثت کا استحقاق اس وقت پیدا ہوتا ہے جب مورٔث کی موت حقیقتاً یا حکماً واقع ہو چکی ہو اور وارث بھی زندہ موجود ہو۔ اپنی زندگی میں جیتے جی کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ قانون وراثت کو ہاتھ میں لے کر اپنی جائیداد کو وراثت کے طور پر اپنے ورثاء کو منتقل کرے۔ کیوں کہ ایسا کرنے سے ورثاء پر زیادتی کا امکان باقی رہتا ہے جو شرعاً جائز نہیں۔ اس طرح کی تقسیم جائیداد کے بعد اگر کوئی وارث اس کی زندگی میں فوت ہو گیا تو اسے جو حصہ دیا گیا تھا وہ اس کا وارث نہیں تھا کیوں کہ وراثت میں مورث کی موت کے وقت وارث کی حیات کا تعین ضروری ہے۔
اس بناء پر صورت مسؤلہ میں بیٹے کا اپنے والد سے اس کی زندگی میں اپنے ’’شرعی حق‘‘ کا مطالبہ کرنا درست نہیں۔ البتہ ہبہ یا عطیہ کی صورت میں ممکن ہے، لیکن اسے ’’شرعی حصہ‘‘ قراردینا محل نظر ہے کیوں کہ یہ تو والد کی مرضی پر موقوف ہے۔ نیز ایسا کرتے وقت دوسری اولاد کو بھی مساویانہ طور پر اس میں شامل کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ وہ اپنی تمام جائیداد بطورہبہ دینے کا بھی مجاز نہیں۔ اگر کوئی بیٹا کاروبار میں شریک ہے تو اسے علیحدگی کے وقت، اس کا حصہ رسیدی دیا جا سکتا ہے لیکن یہ حصہ کاروبار کا ہوگا وراثت کا نہیں۔ بہرحال کوئی بھی بیٹا، والد کی زندگی میں، اس کی جائیداد سے بطور وراثت ’’شرعی حصہ‘‘ کا حق دار نہیں۔ واللہ اعلم!
مسئلہ وراثت
سوال: ہمارے ہاں ایک خاتون فوت ہوئی ہے، اس کی اولاد نہیں اور نہ ہی ماں باپ زندہ ہیں، خاوند بھی فوت ہو چکا ہے، اس کا صرف ایک بھائی موجود ہے، اس نے اپنی زندگی میں اپنی بھتیجی کو مبلغ بیس ہزار روپیہ بطور قرض دیا تھا، اب وہ یہ رقم کسی مسجد کو دینا چاہتی ہے۔ کیا وہ ایسا کرسکتی ہے؟ واضح رہے کہ بھائی نے اس کے ساتھ بیماری کے وقت کوئی تعلق نہیں رکھا تھا۔
جواب: صورت مسؤلہ میں خاتون، کلالہ ہے، یعنی اس کا کوئی اصل والدین یا فرع اولاد وغیرہ نہیں۔ ایسی صورت میں اس کے وارث عصبہ ہوتے ہیں، چونکہ بھائی موجود ہے اور وہ عصبہ ہے اس لیے وہ تمام جائیداد کا وارث ہو گا۔ واضح رہے کہ عصبہ، میت کے وہ قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں جن کے حصے متعین نہیں ہوتے بلکہ مقررہ حصہ لینے والوں سے بچا حصہ ان کو ملتا ہے، اگر کچھ نہ بچے تو یہ محروم ہوتے ہیں۔ مقررہ حصہ لینے والوں کی عدم موجودگی میں تمام ترکہ کے وارث بنتے ہیں۔ بہرحال بھائی، میت کے تمام ترکہ کا وارث ہو گا اگرچہ اس نے بیماری کی حالت میں اپنی بہن کی خدمت نہیں کی جو اس کا اخلاقی فرض تھا، تاہم یہ کوئی ایسا جرم نہیں کہ اس کی پاداش میں اسے جائیداد سے محروم کر دیا جائے۔ بھتیجی کو بیس ہزار بطور قرض دیا گیا تھا وہ
|