زکوٰۃ و صدقات
دنیاوی علوم سیکھنے والے کا مالی تعاون
سوال: کیا دنیاوی علوم پڑھنے والے طالب علم کا مالی تعاون کیا جا سکتا ہے؟ قرآن و حدیث کے مطابق اس مسئلہ کی وضاحت کریں۔
جواب: دنیاوی علوم دو طرح کے ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ ایسے علوم و فنون جو تمدن کی ترقی کے لیے ضروری ہیں، بلکہ اس کا حصہ ہیں، ایسے علوم میں غریب اور نادار طلبہ سے مالی تعاون کیا جا سکتا ہے۔
٭ ایسے علوم جو دین سے دوری کا باعث ہوں، جنہیں سیکھنے سے عقائد و اعمال میں بگاڑ پیدا ہوتا ہو، ایسے علوم کا سیکھنا ناجائز ہے اور اس پر مالی تعاون بھی حرام ہے۔واضح رہے کہ حق دار طلبہ کو ان کی غربت کی بناء پر مال زکوٰۃ بھی دیا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم
مشینری پر زکوٰۃ
سوال: زکوٰۃ کے متعلق اسلام کا کیا ضابطہ ہے، کیا فیکٹری میں نصب شدہ آلات اور فرنیچر وغیرہ پر بھی زکوٰۃ لاگو ہے، یا صرف پیداوار سے زکوٰۃ دینا ہوتی ہے؟
جواب: اسلام کا قانون یہ ہے کہ پیداوار پر زکوٰۃ ہوتی ہے، پیداوار کے ذرائع زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہیں۔جیسا کہ زمین سے اگنے والی زرعی پیداوار سے عشر دیا جاتا ہے، زمین کی قیمت پر زکوٰۃ لاگو نہیں ہوتی۔ اسی طرح دکان میں پڑا ہوا باردانہ یا فرنیچر پر بھی زکوٰۃ نہیں بلکہ اس میں موجود تجارتی سامان پر زکوٰۃ ہے۔ فیکٹری میں نصب شدہ مشینیں جو پیداوار کا ذریعہ ہیں خود بکاؤ مال نہیں ہوتا، وہ زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہوتی ہیں البتہ ان کی پیداوار پر زکوٰۃ ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’پیداوار کا ذریعہ بننے والے جانوروں پر زکوٰۃ نہیں۔‘‘[1]
اس حدیث میں اگرچہ جانوروں کا ذکر آیا ہے، تاہم یہ ایک عام اصول ہے کہ جو چیز پیداوار کا ذریعہ ہے وہ زکوٰۃ سے
|