محبت کی تین اقسام ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ محبت تعظیم:… جیسے والد اور استاد سے کی جاتی ہے۔
٭ محبت شفقت:… جیسے اولاد اور شاگردوں سے کی جاتی ہے۔
٭ محبت استحسان:… جو عام لوگوں سے کی جاتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں تمام اصناف محبت کو جمع کر دیا ہے کہ ’’اس وقت تک ایمان کی تکمیل نہیں ہوگی جب تک ان تمام اقسام سے زیادہ مجھ سے محبت نہ ہو۔‘‘ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ’’جو انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح محبت کرے گا وہ آپ کے ساتھ جنت میں جائے گا۔‘‘[1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کی سنت کی تائید و نصرت، اس کا دفاع کیا جائے، آپ کے لائے ہوئے طریقے پر عمل کیا جائے، اس کے لیے وقت، صلاحیت اور مال وغیرہ خرچ کیا جائے، حقیقی ایمان انہی باتوں سے مکمل ہوگا، اس سلسلہ میں جو چیز رکاوٹ بنے اسے قربان کر دیا جائے، اگر مومن اپنے اندر اس معیار کو محسوس کرتا ہے تو حقیقی مومن ہے، بصورت دیگر اسے اپنے ایمان کے متعلق غور و فکر کرنا چاہیے۔
اصولِ ایمان اور اس کی شاخیں
سوال:ایمان کے متعلق احادیث میں ہے کہ اس کے درج ذیل کچھ اصول ہیں: ’’اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، یوم آخرت، اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لایا جائے۔‘‘ جبکہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ’’ایمان کی ساٹھ سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں۔‘‘ ان میں کیا تطبیق ہے؟
جواب: حدیث جبریل علیہ السلام میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ایمان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، قیامت کے دن اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لاؤ۔‘‘[2]
اس حدیث میں اصول ایمان کی تعداد چھ بیان ہوئی ہے جبکہ دوسری احادیث میں ایمان کی ساٹھ سے کچھ زیادہ شاخیں بیان ہوئی ہیں اور ایک حدیث میں وضاحت ہے کہ ’’حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘[3]
ان دونوں احادیث میں تطبیق یہ ہے کہ پہلی حدیث میں ایمان کی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے اور دوسری احادیث میں امور ایمان یعنی اعمال ایمان بیان ہوئے ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے انہیں امور ایمان سے تعبیر کیا ہے۔[4]
|