جائے، اس طرح نکاح صحیح ہوگا۔ اگر تعلیم یافتہ نہیں تو اشارے وغیرہ سے اس کو بتایا جائے اور اشارہ سے ہی قبولیت کا اقرار کرالیا جائے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’طلاق اور دیگر امور میں اشارہ کرنا۔‘‘[1]
پھر چند ایک احادیث ذکر کی ہیں جن میں اشارے کو کافی خیال کیا گیا ہے۔ انہوں نے حضرت حماد کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر گونگا اپنے سر سے اشارہ کرتا ہے تو یہ کافی ہے۔ بہرحال اشارہ سے ایجاب و قبول کیا جا سکتا ہے جو نکاح کے لیے ضروری ہے، اگر ایسا کرنا ناممکن ہے تو گونگے کا کوئی بھی سرپرست اس کی طرف سے نیابۃً ایجاب و قبول کا فریضہ سرانجام دے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جب حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا تو حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم موجودگی میں نکاح کر کے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو مدینہ روانہ کر دیا تھا، اس موقع پر بھی ایجاب و قبول نیابۃً ہوا تھا۔ صورت مسؤلہ میں بھی گونگے کا والد اس کی طرف سے ایجاب و قبول کرے۔ بہرحال اگر گونگے کو شعور ہے تو اس کا نکاح بھی صحیح ہوگا۔ (واللہ اعلم)
ولیمہ کیا ہے؟
سوال: ولیمہ کی تعریف کیا ہے اور اس کی مقدار کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں؟ اس کے آداب و حقوق کے متعلق کتاب و سنت کی روشنی میں آگاہی فرمائیں۔
جواب: ولیمہ وہ کھانا ہے جسے شادی کے موقع پر مدعوین کے لیے پیش کیا جاتا ہے،وہ جانور کا گوشت ہو یا اس کے علاوہ حسب استطاعت کوئی اور چیز، اس کے فوائد میں خوشی اور اعلان نکاح کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکریہ ادا کرنے کے لیے شریعت نے اسے مشروع قرار دیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی ہے اور آپ نے اس کے متعلق ترغیب بھی دلائی ہے، جیسا کہ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے آپ نے شادی کے موقع پر فرمایا تھا: ’’ولیمہ کرو، خواہ ایک بکری کا ہی کرو۔‘‘[2]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے موقع پر کھجور اور ستو کے ساتھ ولیمہ کیا تھا، اس وقت آپ دوران سفر تھے۔[3]
حسب حال اور حسب ضرورت اس کی مقدار میں کمی و بیشی ہو سکتی ہے، بہرحال اس میں اعتدال ضروری ہے۔
چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی پر اس قدر ولیمہ نہیں کیا جو سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سے شادی کے موقع پر کیا تھا۔ (اس ولیمہ میں آپ نے ایک بکری ذبح کی تھی)‘‘ [4]
|