اشیاء جس کے پاس ہیں اصل مالک نے اسے خرید و فروخت کے لیے قطعی طور پر وکیل نہیں بنایا۔ لہٰذا چوری کی اشیاء کو خریدنا یا فروخت کرنا ہر پہلو سے ناجائز اور حرام ہے۔ پھر چوری کا مال جتنے ہاتھوں میں جائے گا وہ حرام ہی رہے گا اور اصل مالک کے علاوہ کوئی بھی دوسرا ان کا مالک نہیں بن سکے گا۔ اگر اصل مالک کا پتہ ہے تو وہ چیز اسے واپس کی جائے یا جس سے خریدی گئی ہے اسے دے دیں، اس سے فائدہ اٹھانا بھی حرام ہے۔
صورت مسؤلہ میں باڑا مارکیٹ سے گاڑیوں کے پرزے جو اصل قیمت سے بہت کم قیمت پر دستیاب ہو جاتے ہیں انہیں خریدنا جائز نہیں اور نہ ہی گاڑی وغیرہ میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
جیسا کہ سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی نے دور جاہلیت میں ایک چاندی کا جام چوری کر لیا تھا، پھر انہیں اسلام لانے کے بعد اس بات کا احساس ہوا تو وہ اصل مالک کے اہل خانہ کے پاس گئے اور وہاں اعتراف جرم کیا۔ پھر اس کی تلافی بایں صورت کی کہ اپنے حصے کے پانچ صد درہم انہیں واپس کیے اور بتایا کہ باقی پانچ صد درہم میرے دوسرے ساتھی کے پاس ہیں۔[1]
بہر حال چوری کا مال اصل مالک کا ہی رہے گا خواہ وہ کتنے ہاتھوں فروخت ہوتا رہے۔ واللہ اعلم!
پاکستانی مصنوعات پر خود ساختہ جاپان لکھنا
سوال: میں ایک جنرل سٹور پر ملازم ہوں، جہاں مختلف اشیاء فروخت کی جاتی ہیں، مالک دوکان پاکستانی مصنوعات پر خود ساختہ جاپان کا سٹکر لگا کر اسے فروخت کرتے ہیں اور ہمیں بھی ان کے ساتھ تعاون کر نا پڑتا ہے، قرآن و حدیث کے مطابق اس کی وضاحت کریں۔
جواب: دنیوی زندگی گزارنے کے لیے تجارت ایک اہم ذریعہ ہے، لیکن اسے انتہائی سچائی اور دیانت داری کے ساتھ سر انجام دینا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچے دیانت دار تاجر کی بہت فضیلت بیان فرمائی ہے۔
حدیث میں ہے: ’’دیانت دار سچا مسلمان تاجر قیامت کے دن شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔‘‘[2]
یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے تاہم امانت و دیانت اور سچائی کے ساتھ تجارت کرنا بہت فضیلت والا عمل اور نہایت باعث برکت ہے۔ تجارت میں دیانت داری کا تقاضا ہے کہ کوئی عیب دار چیز فروخت نہ کی جائے۔ اگر اس میں کوئی عیب ہے تو اس کی وضاحت کر دینا چاہیے۔
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے اور جو مسلمان اپنے بھائی کے ہاتھ کوئی عیب دار چیز فروخت کرے تو اس کے لیے حلال نہیں کہ اس کے اس عیب کو بیان نہ کر دے۔‘‘[3]
اس حدیث کا تقاضا ہے کہ سودے میں اگر عیب ہے تو اسے بیان کر دیا جائے، عین ممکن ہے کہ جس مقصد کے لیے کوئی
|