نکاح و طلاق
نکاح شغار (نکاح وٹہ سٹہ)
سوال: ہماری برادری میں نکاح وٹہ سٹہ کا بہت رواج ہے، اس کے متعلق شرعی حکم کی وضاحت کریں، کیا اگر حق مہر رکھ لیا جائے تو بھی وٹہ بن جاتا ہے؟
جواب: نکاح وٹہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی صراحت کے ساتھ منع فرمایا ہے۔
چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح وٹہ سے منع فرمایا ہے۔ [1]
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسلام میں وٹہ سٹہ کی شادی نہیں۔‘‘[2]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح وٹہ کی صورت یہ بیان فرمائی ہے کہ کوئی شخص اپنی بیٹی یا بہن کا رشتہ کسی سے اس شرط پر کرے کہ وہ اپنی بیٹی یا بہن کا رشتہ اس سے کر دے گا، آپ نے اس سلسلہ میں حق مہر کا ذکر نہیں فرمایا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ممانعت عام ہے، حق مہر ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں منع ہے اور جس تعریف میں حق مہر نہ ہونے کا ذکر ہے وہ حضرت نافع کی تفسیر ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ نہیں ہیں۔
چنانچہ ایک حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے کہ امیر مدینہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف لکھا کہ دو آدمیوں نے نکاح شغار کیا ہے اور مہر بھی مقرر کیا ہے۔ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں جواب لکھا کہ ان میں تفریق کرا دی جائے کیوں کہ یہ وہی شغار ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔[3]
نکاح وٹہ اس لیے بھی منع ہے کہ اس میں سر پرست کی طرف سے عورتوں پر ظلم کیا جاتا ہے، انہیں شادی پر مجبور کیا جاتا ہے خواہ وہ اسے ناپسند کرتی ہوں، اس نکاح میں عورتوں کو ایک سودا سلف کی حیثیت دی جاتی ہے، عورت کی مرضی اور رغبت کا اس میں کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ معاشرتی طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ اگر ایک عورت کو کسی قصور کی وجہ سے سزا مل جاتی ہے تو دوسری کو بے قصور ہونے کے باوجود اس کے کٹھن مرحلہ سے گزرنا پڑتا ہے، چنانچہ ہمارے ہاں حالات و واقعات سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ (واللہ اعلم)
|