رجوع کی کیا صورت ہے؟
جواب: حالت حمل میں طلاق ہو جاتی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا، جب انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تھی، آپ نے فرمایا: ’’اسے طہر یا حمل کی حالت میں طلاق دو۔‘‘[1]
اللہ تعالیٰ نے حالت حمل میں دی ہوئی طلاق کی عدت وضع حمل رکھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾[2]
’’حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ اپنا حمل جنم دے دیں۔‘‘
حاملہ عورتوں کی عدت بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دوران حمل طلاق دی جا سکتی ہے اور یہ طلاق بھی نافذ ہے، اگر وضع حمل سے پہلے رجوع کر لیا جائے تو تجدید نکاح کی ضرورت نہیں اور اگر بچہ جنم دینے کے بعد صلح کا پروگرام بنا ہے تو تجدید نکاح کے ساتھ رجوع ہو سکے گا۔ کیوں کہ وضع حمل کے بعد نکاح ختم ہو جاتا ہے۔ واللہ اعلم!
بیک وقت تین طلاقیں دینا
سوال: میں نے اپنی بیوی کو بحالت طیش و غضب ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دی ہیں، یعنی میں نے لفظ طلاق تین بار استعمال کیا ہے، اب میں نہایت پریشان اور نادم ہوں، ایسے حالات میں اگر کوئی متبادل حل ہو تو بتائیں تاکہ دونوں خاندان پراگندہ ہونے سے بچ جائیں۔
جواب: مسئلہ طلاق بڑی نزاکت کا حامل ہے لیکن ہم لوگ اس سلسلہ میں بہت لاپرواہ واقع ہوئے ہیں۔معمولی گھریلو ناچاقی کی وجہ سے اپنے ترکش سے طلاق کا تیر نکال پھینکتے ہیں بلکہ یکبارگی طلاق ثلاثہ دینا ہمارا معمول بن چکا ہے، حالانکہ کتاب وسنت کے مطابق طلاق دینے سے قبل چار مراحل سے گزرنا چاہیے جو حسب ذیل ہیں:
٭ وعظ و نصیحت: بیوی کو سمجھایا جائے اور طلاق کی سنگینی سے آگاہ کیا جائے۔
٭ ان کا بستر الگ کر دیا جائے،سمجھ دار عورت کے لیے خواب گاہ سے اس کی علیحدگی بہت گراں ہوتی ہے۔
٭ معمولی مارپیٹ: انہیں ہلکی پھلکی مارپیٹ کی جائے، اس کے چہرے پر نہ مارا جائے، اس سے سزا نہیں بلکہ عار دلانا مقصود ہوتا ہے۔
٭ رشتے داروں کے ذریعے ثالثی کا اہتمام کیا جائے تاکہ مابہ النزاع کو افہام و تفہیم سے حل کیا جائے۔
سب سے آخر میں طلاق کا مرحلہ آتا ہے، وہ بھی ایک طلاق دے کر اسے آزاد چھوڑ دیا جائے۔ بیک وقت تین طلاقیں دینے کا طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی ناپسند تھا، آپ نے اس انداز سے طلاق دینے کو اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل اور مذاق قرار دیا ہے۔[3]
|