تو انتہائی کبیرہ گناہ ہے۔ بیوی کو خاوند کے کہنے پر اپنے والد سے قطع تعلقی کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اس سلسلہ میں کسی عالم دین کی مدد لی جا سکتی ہے جو خاوند کو سمجھائے اور اسے اللہ تعالیٰ کا خوف دلائے اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا حوالہ دے: ’’اطاعت و فرمانبرداری تو بھلے کاموں میں ہوتی ہے۔‘‘[1]
بہرحال والدین سے قطع تعلقی بھلا کام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔ لہٰذا ایسے معاملات میں خاوند کی بات نہ مانی جائے۔ واللہ اعلم!
صرف ایک بیٹے کو ہبہ دینا
سوال: میرے والد محترم بیمار ہوئے، انہوں نے بیماری کی حالت میں اپنے بڑے بیٹے کو ایک دکان ہبہ کر دی۔ اس کے بعد اسی مرض میں ان کا انتقال ہوگیا، اب دوسرے بیٹے اعتراض کرتے ہیں کہ اس دکان کو بھی ترکہ میں شامل کیا جائے جب کہ بڑا بیٹا اس پر قابض ہے اور دینے کے لیے تیار نہیں، اس کے متعلق رہنمائی فرمائیں۔
جواب: باپ اور اولاد کا رشتہ بہت نازک اور قریبی ہوتا ہے، اس میں معمولی سی خرابی بھی بہت بڑے مفاسد کا باعث بن سکتی ہے۔ اس بناء پر شریعت کی طرف سے ہدایت کی گئی ہے کہ بچوں میں مساوات سے کام لیا جائے تاکہ کسی کو احساس محرومی نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے متعلق عدل و انصاف سے کام لیا کرو۔‘‘[2]
صرف بڑے بیٹے کو عطیہ دینے سے دوسرے بھائیوں میں اس بھائی اور باپ کی خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہو سکتے ہیں، اس لیے اسلام نے حکم دیا ہے کہ عطیہ دینا ہے تو بیٹے بیٹی کی تمیز کیے بغیر سب کو برابری کے اصول کے مطابق دیا جائے۔
چنانچہ حدیث میں ہے کہ سیدنا بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ! میں نے اپنے بیٹے کو اپنا ایک غلام بطور عطیہ دیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تو نے اپنے سب بیٹوں کو عطیہ دیا ہے؟‘‘
سیدنا بشیر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! نہیں۔ میں نے ایسا نہیں کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر اسے بھی واپس کرو۔‘‘[3]
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اس قسم کے ظلم پر گواہ نہ بناؤ کیوں کہ میں ظلم کی گواہی نہیں دیتا۔‘‘[4]
ویسے بھی مرض الموت میں انسان کو مالی معاملات کے متعلق ایسے تصرفات کی اجازت نہیں۔ جن سے دوسروں کے حقوق متاثر ہوتے ہوں۔ جیسا کہ سوال میں ہے، ایسا کرنے سے دوسرے بیٹوں کی حق تلفی ہوتی ہے۔ لہٰذا اس دکان کو ترکہ میں شامل
|