ڈیری فارم پر زکوٰۃ
سوال: لوگوں نے بھینسوں اور گائیوں کے فارم بنا رکھے ہیں، ان سے زکوٰۃ کیسے ادا ہو گی؟ زکوٰۃ کے لیے جانوروں کا حساب ہو گا یا ان کی پیداوار یعنی دودھ وغیرہ کے حساب سے زکوٰۃ ادا کرنا ہو گی؟ قرآن و حدیث کے مطابق وضاحت فرمائیں۔
جواب: پالتو جانوروں کی چار اقسام حسب ذیل ہیں:
۱۔ وہ جانور جو سال کے اکثر حصہ میں باہر چرتے ہوں، ان کے لیے قیمتاً چارہ نہیں خریدا جاتا۔
ایسے جانوروں کی زکوٰۃ کے لیے تین شرائط ہیں:
الف: نصاب کو پہنچ جائیں۔
ب: ان پر سال گزر جائے۔
ج: وہ جنگلات میں چرنے والے ہوں۔
۲۔ جانور گھروں یا ڈیری فارم میں رکھے ہوتے ہیں، ان کے لیے چارہ خریدا جاتا ہے، یا کاشت کیا جاتا ہے، وہ صرف دودھ یا افزائش نسل کے لیے رکھے جاتے ہیں، ایسے جانوروں کی پیداوار (دودھ) کی آمدن اگر نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے تو اس سے زکوٰۃ ادا کرنا ہو گی۔
۳۔ وہ جانو رجو کھیتی باڑی یا سواری کے لیے رکھے جاتے ہیں، ان میں زکوٰۃ نہیں ہوتی۔
۴۔ وہ جانور جو تجارت کے لیے رکھے جاتے ہیں، ان کی قیمت میں زکوٰۃ ہو گی، مثلاً ایک بھینس اگر لاکھ روپے کی ہے تو اس میں اڑھائی ہزار روپیہ بطور زکوٰۃ ادا کرنا ہو گا۔
صورت مسؤلہ میں اسی تفصیل کے مطابق اگر ڈیری فارم میں گائے بھینس صرف دودھ کے لیے رکھی گئی ہے تو ان کے دودھ کا حساب ہو گا، اس سے حاصل ہونے والی رقم اگر نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے تو اس سے زکوٰۃ ادا کرنا ہو گی۔ اس صورت میں بھینسوں اور گائیوں کی مالیت پر زکوٰۃ نہیں اور اگر انہیں برائے فروخت رکھا گیا ہے یا انہیں گوشت کے لیے پالا گیا ہے یا بکریاں قربانی کے دنوں میں فروخت کے لیے رکھی گئی ہیں تو ان کی مجموعی مالیت پر زکوٰۃ ہو گی۔
ہمارے ہاں جو ڈیری فارم ہیں، ان میں جانور دودھ کے لیے رکھے جاتے ہیں، لہٰذا اس دودھ سے حاصل ہونے والی رقم نصاب کو پہنچ جائے تو اس سے چالیسواں حصہ بطور زکوٰۃ ادا کیا جائے۔ (واللہ اعلم)
ہبہ میں قبضہ کرنا
سوال: میں نے زبانی طو ر پر ایک قطعہ ارضی اپنی بیوی کو ہبہ کیا، لیکن اس کے نام لگوانے سے پہلے وہ فوت ہو گئی، اب وہ قطعہ ارضی کیسے تقسیم ہو گا؟ واضح رہے کہ مرحومہ کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں، کیا یہ قطعہ ارضی اس کے ترکہ میں شامل ہو گا؟
|