حدیث میں اس کی بہت تاکید کی گئی ہے۔
٭ وصیت… قرض کی ادائیگی کے بعد میت کی جائز وصیت کو پورا کیا جائے، جائز وصیت کی تین شرائط ہیں:
)۱(… وہ کل جائیداد کی ایک تہائی یا اس سے کم ہو۔
)۲(… وصیت کسی شرعی وارث سے متعلق نہ ہو
)۳(… وہ جائز کام کے لیے ہو، حرام اور ناجائز وصیت کو پورا کرنا درست نہیں۔
٭ مذکور مراحل کو تقسیم سے پہلے پورا کرنا ضروری ہے۔ اس کے بعد چوتھا حق یہ ہے کہ اسے عدل و انصاف کے ساتھ ورثاء میں تقسیم کیا جائے، پہلے ان ورثاء کو دیا جائے جن کے حصے طے شدہ ہیں۔ ان سے بچا ہوا ترکہ عصبات میں تقسیم کرنا چاہیے۔ ان کی عدم موجودگی میں ذوالارحام حق دار ہیں۔
صورت مسؤلہ میں سب سے پہلے بیوہ کا آٹھواں حصہ نکالا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ﴾[1]
’’اگر مرنے والے کی اولاد ہو تو بیویوں کا آٹھواں حصہ ہے۔‘‘
باقی سات حصے اس طرح تقسیم کیے جائیں کہ ایک لڑکے کو لڑکی کے مقابلہ میں دوگنا حصہ ملے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ﴾[2]
’’اللہ تمہیں اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے۔‘‘
سہولت کے پیش نظر کل جائیداد کے اسی حصے بنا لیے جائیں، ان میں سے دس حصے بیوہ کو، چودہ حصے فی لڑکا اور سات حصے فی لڑکی دئیے جائیں۔ زرعی زمین دس بیگے ہیں، جن کے آٹھ صد مرلے بنتے ہیں، اس بناء پر درج ذیل نقشے کے مطابق اسے تقسیم کردیا جائے۔
میت کی جائیداد ۸۰۰ مرلہ
بیوہ بیٹا بیٹا بیٹا بیٹی بیٹی بیٹی بیٹی
100 140 140 140 70 70 70 70
مسئلہ وراثت
سوال: ہمارے ایک عزیز فوت ہوئے، پسماندگان میں بیوہ، دو بیٹیاں اور ایک پوتا ہے، اس صورت میں پوتے کو کیا ملے گا، کیا اس کے حصے کے علاوہ اس کی تالیف قلبی کے لیے کچھ زیادہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔
جواب: بشرط صحت سوال واضح ہو کہ اولاد کی موجودگی میں بیوہ کو آٹھواں حصہ ملتا ہے۔ قرآن حکیم میں ہے:
|