دنیاوی اعتبار سے بھی ہم اس قربانی کا جائزہ لیتے ہیں تو حسب ذیل حقائق سامنے آتے ہیں:
٭ قربانی کے عمل سے بہت سے غریبوں کا معاش وابستہ ہے۔ مثلاً غریب لوگ قربانی کے جانور پالتے ہیں اور متمول حضرات مہنگے داموں اسے خرید لیتے ہیں۔
٭ چرم کا کاروبار کرنے والوں کا بھی قربانی کی کھالیں ایک بہترین ذریعہ معاش ہے۔ بہت سے غریب لوگ چرم کی فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں اور روزی کماتے ہیں۔
٭ قربانی کے دنوں میں جانور ذبح کرنے، کھال اتارنے اور گوشت بنانے والوں کا کاروبار بھی عروج پر ہوتا ہے، یہ کام کرنے والے بھی غریب ہوتے ہیں۔
٭ قربانی کی کوئی چیز بھی ضائع نہیں ہوتی حتی کہ ان کی آنتیں وغیرہ بھی کام آتی ہیں، غریب لوگ انہیں جمع کر کے بھی روزی کماتے ہیں۔
یہ سب قربانی کی برکتیں ہیں، اس کی حکمت یہ ہے کہ اس سے ایک مقدس فریضے اور عظیم عہد کی تجدید ہوتی ہے۔ اگر مغربی تہذیب سے مرعوب حضرات کا فلسفہ مان لیا جائے تو حج کو موقوف کرنا پڑے گا، کیوں کہ ا س میں بھی اربوں روپے ضائع ہوتے ہیں، روزہ بھی ترک کرنا پڑے گا کیوں کہ اس سے جسمانی کمزوری اور قوت کار میں کمی آتی ہے۔ اسی طرح نماز اورزکوٰۃ بھی چھوڑنا ہوں گے۔
بہرحال ہمارے نزدیک قربانی ایک ایسی عبادت ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔ اس سے جو جذبہ پیدا ہوتا ہے وہ دوسری عبادات سے پیدا نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم!
قربانی اور اس کے عیوب
سوال: مسلمان ہر سال، اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے ہزاروں جانور اللہ کی راہ میں قربان کیے جاتے ہیں، کتاب وسنت کی روشنی میں وہ کون کون سے عیوب و نقائص ہیں جن کی موجودگی میں قربانی کا جانور قربانی کے قابل نہیں رہتا؟ تفصیل سے آگاہ فرمائیں۔
جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ قربانی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیاجاتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ قربانی کا جانور موٹا تازہ، خوبصورت اور ہر قسم کے عیب اور نقص سے پاک ہو، اگرچہ اللہ تعالیٰ کو قربانی کا گوشت و پوست نہیں پہنچتا بلکہ اللہ تعالیٰ کو دل کا تقویٰ پہنچتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ﴾[1]
’’اللہ تعالیٰ کو قربانی کے جانوروں کا نہ تو گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اللہ تعالیٰ کو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘
|