گا تاکہ اس کی اشک شوئی اور حوصلہ افزائی ہو جائے۔ واللہ اعلم!
ایک مسئلہ وراثت
سوال: میرے ماموں فوت ہوئے ہیں، ان کی نو ایکڑ زمین ترکہ ہے۔ پسماندگان میں چھ بہنیں اور تین چچا زاد بھائی ہیں۔ نیز ان کی خالہ اور پھوپھی بھی زندہ ہیں۔ ان ورثاء میں مرحوم کا ترکہ تقسیم کرنا ہے، وضاحت فرمادیں۔
جواب: اگر میت کے ذمے کوئی قرضہ وغیرہ نہیں اور نہ ہی اس نے کوئی وصیت کی ہے تو ترکہ کی تقسیم حسب ذیل ہو گی۔
٭ اس کی بہنوں کو ترکہ سے دو تہائی ملے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاِنْ کَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَہُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَکَ﴾
’’اگر میت کی دو (یا دو سے زیادہ) بہنیں ہیں تو وہ ترکے میں سے دو تہائی کی حق دار ہوں گی۔‘‘[1]
٭ دو تہائی حصہ نکالنے کے بعد جو ایک تہائی باقی ہے، اس کے حق دار چچا زاد بھائی ہیں کیوں کہ وہ عصبہ ہیں۔
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’مقررہ حصے ان کے حق داروں کو دو اور جو باقی بچے وہ میت کے سب سے زیادہ قریبی مرد رشتے دار کا ہے۔‘‘[2]
٭ میت کی خالہ اور پھوپھی کا تعلق اولوا الارحام سے ہے۔ مقررہ حصے لینے والوں اور عصبات کی موجودگی میں یہ محروم ہیں، انہیں میت کی جائیداد سے کچھ نہیں ملے گا۔
مرحوم کی جائیداد نو ایکڑ ہے، اس کے دو تہائی چھ ایکڑ، چھ بہنوں کو دئیے جائیں، ہر بہن کو ایک ایک ایکڑ مل جائے گا اور باقی ایک تہائی جو تین ایکڑ ہیں وہ تین چچا زاد بھائیوں کے لیے ہیں۔ ہر چچا زاد بھائی کو بھی ایک ایک ایکڑ مل جائے گا۔
نوٹ:… اگر میت کے ذمے کوئی قرضہ ہے تو پہلے اسے اتارا جائے، اسی طرح اگر اس نے کوئی وصیت کی ہے تو ادائیگی قرض کے بعد وصیت کو پورا کیا جائے، بشرطیکہ وہ ایک تہائی سے زائد ہو اور نہ ہی کسی وارث رشتہ دار کے لیے ہو۔ واللہ اعلم بالصواب!
مسئلہ وراثت
سوال: ہمارے والد گرامی فوت ہوئے، پسماندگان میں تین لڑکے، چار لڑکیاں اور ایک بیوہ ہے، ان کا ترکہ دس بیگے زرعی زمین ہے،اس کی تقسیم کیسے ہو گی؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرما دیں۔
جواب: میت کے ترکہ سے چار حقوق تعلق رکھتے ہیں جو بالترتیب حسب ذیل ہیں:
٭ کفن دفن… اگر میت کے کفن و دفن کا انتظام کرنے والا کوئی نہ ہو تو اس کے ترکہ سے مناسب انداز کے ساتھ کفن و دفن کا انتظام سب سے پہلے کیا جائے گا۔
٭ ادائیگی قرض… اس کے بعد میت کے ذمے جتنا قرض ہو اسے ادا کیا جائے خواہ ادائیگی میں تمام ترکہ صرف ہو جائے۔
|