گھٹی دی جاتی تھی۔ اس خام فکر کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ اگر بچہ ضدی اور بداخلاق ہو تو خاندان والے گھٹی دینے والے کو ہدف طعن بناتے اور اسے برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ نومولود کے اچھے یا برے ہونے میں والدین کی تربیت کا اثر تو ہو سکتا ہے لیکن گھٹی دینے سے کسی بزرگ کے اچھے اثرات نومولود میں سرایت نہیں کرتے، ہاں اس کی دعا کے اثرات ہو سکتے ہیں۔
ہم آخر میں اس بات کی وضاحت کرنا بھی ضروری خیال کرتے ہیں کہ ’’ہمدرد گھٹی‘‘ شرعی گھٹی کے قائم مقام نہیں ہو سکتی کیوں کہ ہمدرد گھٹی تو پیٹ کی صفائی کے لیے ہوتی ہے۔ اس لیے شرعی گھٹی کے لیے کسی نیک مرد یا نیک عورت کا انتخاب کرنا چاہیے۔ اگر موقع پر کوئی نیک بندہ نہ مل سکے تو بچے کو نیک انسان کے پاس لے جانا بھی مشروع ہے، جیسا کہ درج بالا احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔ واللہ اعلم!
ریشم کا استعمال
سوال: ہمارے ہاں تقریبات میں مرد حضرات ریشمی لباس پہنتے ہیں، اس کے متعلق وضاحت درکار ہے، کیا کتاب و سنت میں اسے پہننے کی اجازت ہے؟
جواب: بلاشبہ ریشم کا استعمال مردوں کے لیے حرام اور عورتوں کے لیے جائز ہے۔ کیوں کہ مردوں کی مردانگی کے خلاف ہے کہ وہ عورتوں جیسی نرم و نازک زینت استعمال کریں۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی صراحت فرمائی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ذیشان ہے:
’’سونا اور ریشم میری امت کی عورتوں کے لیے حلال کیا گیا ہے جبکہ مردوں پر حرام ہے۔‘‘[1]
جو انسان یعنی مرد حضرات دنیا میں اسے استعمال کریں گے انہیں آخرت میں اس سے محروم کر دیا جائے گا۔
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے دنیا میں ریشم پہنا وہ آخرت میں اس سے محروم ہو گا۔‘‘[2]
ایک روایت میں ہے کہ جو لوگ اسے دنیا میں استعمال کرتے ہیں، ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہو گا۔[3]
ریشمی گدے استعمال کرنے کی بھی ممانعت ہے، احادیث میں اس کی بھی صراحت ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے۔[4]
البتہ کسی دوسرے کپڑے پر ٹکڑوں کی شکل میں جائز ہے۔
چنانچہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹکڑوں کی شکل میں اسے استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔[5]
اس کی وضاحت دوسری احادیث میں ہے کہ دو تین انگلی کے برابر استعمال کی اجازت ہے۔[6]
یعنی قلیل مقدار میں ریشم کی لائنیں یا چھوٹی چھوٹی پتیاں ہوں تو جائز ہے، اسی طرح خارش وغیرہ کی وجہ سے اسے مرد
|