کے مطابق اس کا دودھ پینے میں کوئی حرج نہیں، قیمت سے زیادہ دودھ حاصل کرنا سود ہے۔‘‘[1]
مرہونہ زمین کی صورت میں اگر مرتہن ٹھیکے کی رقم راہن کے قرضہ سے منہا کردی جائے۔ اگر مرتہن خود کاشت کرے تو پیداوار تقسیم کر کے مالک کے حصے کے مطابق اس کا قرضہ کم کر دے۔
صورت مسؤلہ میں کسی نے قرضہ کے بدلے اپنا مکان گروی رکھا ہے اگر قرض دار اس میں رہائش رکھنا چاہتا ہے تو اس کا کرایہ طے کیا جائے اور اس کرائے کی رقم قرضے سے کم کرتا رہے، اگر کرایہ کی رقم کو قرض سے منہا نہیں کرتا تو یہ صریح سود ہے۔
ہمارا رجحان یہ ہے کہ ایسی چیز گروی رکھی جائے جس پر خرچ کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ جیسے زیورات وغیرہ تاکہ وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ گروی چیز کی حیثیت ایک امانت کی سی ہے، جب ادھار یا قرض چکا دیا جائے تو وہ چیز مالک کو اصل حالت میں واپس کر دی جائے گی۔ واللہ اعلم!
مکان گروی پر دینا
سوال: ہم نے ایک لاکھ روپیہ کسی سے قرض لیا ہے اور اس کے عوض اپنا مکان گروی رکھا ہے۔ ہمیں رہنے کے لیے کوئی مکان نہیں ملتا، اس لیے ہم اس مکان میں رہتے ہیں اور جس سے قرض لیا اسے ہر ماہ اس کا کرایہ ادا کرتے ہیں، کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے؟
جواب: کوئی چیز گروی رکھ کر قرض یا کوئی اور چیز آئندہ کی ادائیگی پر ادھار لی جا سکتی ہے، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے چند وسق جو لیے اور اس کے پاس اپنی زرہ گروی رکھی۔[2] لیکن اس گروی شدہ چیز سے صرف اتنا فائدہ اٹھانے کی اجازت ہے جس قدر اس پر اخراجات اٹھتے ہوں، مثلاً بکری کو اگر چارہ ڈالنا ہے تو اس کا دودھ حاصل کر لیا جائے اور اگر سواری کا جانور ہے تو چارہ وغیرہ ڈالنے کے عوض اس پر سورای کر لی جائے۔ دور حاضر میں اگر کسی نے گاڑی گروی رکھی ہے تو اپنا پٹرول ڈال کر اس پر سفر کیا جا سکتا ہے لیکن گروی میں زمین لے کر اسے کاشت کرنا اور پیداوار خود اٹھانا یا مکان کے عوض خود رہائش رکھنا یا کسی کو کرایہ پر دے کر خود کرایہ وصول کرناجائز نہیں۔ صورت مسؤلہ میں جس شخص کا مکان ہے وہ خود ہی کرایہ دار کی حیثیت سے کی حیثیت سے اس مکان میں رہائش رکھے ہوئے ہیں، ایسا کرنا جائز نہیں، اگر اس کے کرایہ کو اصل قرض سے منہا کر دیا جائے تو جائز ہے۔ اسی طرح زمین کی پیداوار کو بقدر حصہ اگر قرض سے منہا ادا کر دیاجائے تو گروی شدہ زمین کو کاشت کیا جا سکتا ہے، بصورت دیگر گروی چیز سے کسی قسم کا فائدہ اٹھانا شرعاً جائز نہیں۔ (واللہ اعلم)
کئی سال تک کے لیے باغ خریدنا
سوال: ہمارے ہاں اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک باغ کئی سالوں تک کے لیے خرید لیا جاتا ہے، کیا شرعی طور پر اس
|