طہارت و وضو
عورت کے لیے تمام سر کا مسح
سوال :دوران وضو کیا عورت اپنے سر کے تمام بالوں کا مسح کرے گی؟ میں نے سنا ہے کہ عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ دوران وضو اپنے سر کے کچھ حصے کا مسح کرے یہ بات کس حد تک صحیح ہے؟ کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔
جواب: قرآن کریم میں وضو کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَيْدِيَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ﴾[1]
’’اے ایمان والو! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کرو تو اپنا منہ اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ دھو لیا کرو نیز سر کا مسح بھی کرو، اس کے علاوہ ٹخنوں تک اپنے پاؤں دھویا کرو۔‘‘
اس آیت کریمہ میں وضو کے لیے سر کے مسح کو بھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اس کا طریقہ اور کیفیت احادیث میں بیان ہوئی ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کریمہ پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’باب مسح الراس کلہ‘‘ ’’تمام سر کا مسح کرنا۔‘‘[2]
اس کے بعد انہوں نے سیدنا سعید بن مسیب کا قول نقل کیا ہے کہ عورت بھی مردوں کی طرح اپنے تمام سر کا مسح کرے گی، پھر امام مالک رحمہ اللہ کا حوالہ دیا ہے کہ ان سے سوال ہوا، آیا کچھ سر کا مسح کرنا جائز ہے؟ تو انہوں نے سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث بطور حوالہ پیش کی کہ عورت کو بھی تمام سر کا مسح کرنا ہوگا۔
سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث حسب ذیل ہے:
’’انہوں نے وضو کا طریقہ عملاً بیان کر کے مسح کی وضاحت فرمائی اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کا مسح کیا، اپنے دونوں ہاتھوں کو سر کے آگے اور پیچھے لے گئے، پیشانی سے شروع کیا یہاں تک کہ گدی تک لے گئے، پھر اسی جگہ واپس لائے جہاں سے شروع کیا تھا۔‘‘[3]
|