اس لیے کافروں اور مشرکوں سے آزادانہ طور پر تحائف کے تبادلہ سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ہاں اگر کوئی شرعی یا سیاسی مصلحت ہو تو ہدیہ لینے دینے میں چنداں حرج نہیں۔ مثلاً کسی کسی کافر سے امید ہو کہ اس کے ساتھ موافقت سے وہ قریب ہوگا اور اسلام قبول کر لے گا۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں عنوان قائم کیے ہیں:
۱۔ مشرکین سے ہدیہ قبول کرنا۔[1] ۲۔ مشرکین کو ہدیہ پیش کرنا۔[2]
ان عناوین کو ثابت کرنے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے چند ایک احادیث کا حوالہ دیا ہے۔مثلاً
٭ ایلہ کے بادشاہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سفید خچر بطور ہدیہ بھیجا اور آپ نے تبادلے کے طور پر ایک ریشمی چادر اسے عنایت فرمائی۔[3]
٭ ایک یہودی عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر آلود بکری کا گوشت پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول فرمایا اگرچہ آپ کو اس کا نقصان ہوا تھا۔[4]
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار و مشرکین کے تحائف درج ذیل شرائط کے ساتھ قبول کیے جا سکتے ہیں:
٭ ہدیہ دینے یا قبول کرنے کا مقصد انہیں اسلام کے قریب کرنا ہو یا وہاں کی مصلحت ہو۔
٭ کفار و مشرکین کے خصوصی تہوار کے ساتھ اس کا تعلق نہ ہو۔
٭ ان سے دلی محبت کا اظہار قطعاً مقصود نہ ہو۔
اگر کفار و مشرکین سے کوئی خطرہ ہو یا وہ ان سے برسر پیکار رہتے ہوں تو ایسے حالات میں ان سے ہدایا لینا یا انہیں تحائف پیش کرنا درست نہیں جیسا کہ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’مجھے مشرکین کے عطایا قبول کرنے سے منع کر دیا گیا ہے۔‘‘[5]
صورت مسؤلہ میں درج بالا تفصیل کے مطابق پڑوسی سے معاملہ کیا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم!
ابو عیسیٰ کنیت رکھنا
سوال: میرے ماموں مرحوم عالم دین تھے، انہوں نے اپنی کنیت ’’ابو عیسیٰ‘‘ رکھی تھی۔ ایک اور عالم دین نے مجھے بتایا کہ ابو عیسیٰ کنیت رکھنا منع ہے۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ اس سلسلہ میں آپ کی رہنمائی درکار ہے۔
جواب: کنیت عرف عام میں کسی بھی رشتے دار کے تعلق کو ظاہر کرکے پکارنے کا نام ہے۔ جیسے ابو عبد اللہ، یعنی عبد اللہ کا باپ اور یہ ام اور ابو کے حوالے سے کسی بھی شخص کے نام پر اختیار کی جا سکتی ہے خواہ وہ حقیقت کے اعتبار سے ابھی ماں یا باپ
|