بیوی کے اخراجات
سوال: میری شادی کو تین سال ہوئے ہیں لیکن میرے میاں اخراجات کے سلسلہ میں بہت کنجوس ہیں بلکہ وہ جو کچھ دیتے ہیں وہ نہ دینے کے مترادف ہے۔ کیا شادی کے بعد عورت کے اخراجات کی ذمہ داری خاوند پر نہیں؟
جواب: معاشرتی طور پر یہ بات معروف ہے کہ شادی کے بعد اخراجات کی ذمہ داری خاوند پر عائد ہوتی ہے، والدین اس قسم کی ذمہ داری سے فارغ ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِه وَ مَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهٗ فَلْيُنْفِقْ مِمَّاۤ اٰتٰىهُ اللّٰهُ﴾[1]
’’خوش حال کو چاہیے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق خرچہ دے اور تنگ دست بھی اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرے۔‘‘
اس قرآنی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ شادی کے بعد اہل خانہ کا خرچہ اور ان کی ضروریات کو پورا کرنا خاوند کی ذمہ داری ہے۔
چنانچہ سیدنا معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم پر بیوی کا کیا حق ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم خود کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ اور جب خود لباس پہنو تو اسے بھی پہناؤ۔‘‘[2]
اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر جو برتری اور فضیلت دی ہے اس کی ایک وجہ یہ بیان کی ہے کہ ’’وہ ان پر اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔‘‘[3]
اس کی فضیلت بھی بہت ہے، اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’جب آدمی اپنے اہل خانہ پر ثواب کی نیت سے خرچ کرے تو یہ اس کے لیے صدقہ بن جاتا ہے۔‘‘[4]
حتیٰ کہ اگر خاوند اپنی بیوی کو پانی پلاتا ہے تو اس پر بھی اسے اجر ملتا ہے۔
چنانچہ سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’آدمی جب اپنی بیوی کو پانی پلاتا ہے تو اس پر بھی اسے اجر دیا جاتا ہے۔‘‘ میں یہ حدیث سن کر اپنے گھر آیا اور اپنی بیوی کو پانی پلا کر اسے یہ حدیث بیان کی اور کہا کہ میں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔[5]
اس کے ساتھ ساتھ بیوی کو یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ خاوند پر اسی حساب سے خرچ واجب ہے جس قدر اس میں طاقت ہے اور جس سے گھر کے اخراجات پورے ہو جائیں۔ محض دوسری عورتوں کو دیکھ کر اپنے خاوند سے ناجائز مطالبات نہ کرے۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حرکت کو ہلاکت قرار دیا ہے۔
جیسا کہ درج ذیل حدیث میں ہے: ’’بنی اسرائیل کی ابتدائی ہلاکت یہ تھی کہ ایک تنگ دست کی بیوی اسے لباس اور
|